جی بی کے عوام جانبدارانہ رویوں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں، ثوبیہ مقدم
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
سابق صوبائی وزیر گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ دیامر کی زمینیں دریا کے کنارے سے پہاڑ کی چوٹی تک عوام کی ملکیت ہیں، جس کا تحریری معاہدہ موجود ہے۔ جو اس کو نہیں مانتے وہ خطے میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے پورا خطہ بحران میں چلا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سابق صوبائی وزیر و رہنما پیپلز پارٹی گلگت بلتستان ثوبیہ مقدم نے کہا ہے کہ دیامر کی زمینیں دریا کے کنارے سے پہاڑ کی چوٹی تک عوام کی ملکیت ہیں، جس کا تحریری معاہدہ موجود ہے۔ جو اس کو نہیں مانتے وہ خطے میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے پورا خطہ بحران میں چلا جائے گا۔ ایک بیان میں سابق صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان پر مزید ظلم نہ کیا جائے۔ یہاں کے عوام میں مسلسل مایوسی پھیل رہی ہے۔ جی بی کے عوام جانبدارانہ رویوں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ظالمانہ فیصلوں کے وجہ سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت-بلتستان میں منتخب عوامی نمائندے اور جماعتیں نظام اور عوام سے لاتعلق نظر آ رہے ہیں۔ یہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ مذاق اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ پیپلز پارٹی کو گلگت بلتستان میں عوامی حقوق کیلئے منظم انداز میں جدوجہد شروع کرنا ہو گی۔ باشعور عوام بلخصوص نوجوان نسل کو عملی میدان میں کودنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں جو تاریخی زیادتی تحصیل گوہر آباد کے ساتھ کی جا رہی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ گوہر آباد کو دیوار سے لگانے کے ذمہ داروں کو عوام آمدہ الیکشن میں سبق سکھائیں گے۔ پچھلے پانچ سالوں میں کسی بھی سیکٹر کی ایک سکیم بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل نہیں کی گئی ہے۔ حاجی گلبر خان دیامر کے سپوت ہوتے ہوئے بھی گوہر آباد کے عوام کو نظر انداز کر کے بہت مایوس کیا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان رہے ہیں کے عوام
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔