(گزشتہ سےپیوستہ)
یہاں تو ہر گلی کوچے میں کئی کئی دکانیں کپڑے دھونے والوں کی موجود ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لٹانے کے لیے کس قدر دولت ہے۔ بڑے گھرانوں کی بات تو الگ رہی، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے کے لیے کئی کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے اخبارات اور تمام سیاسی لیڈر ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کا بڑا شور شرابہ کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن میں نے سروے کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کسی بھی دکان پر کوئی شے اس لیے فروخت ہونے سے نہیں رہ جاتی کہ اس کی قیمت زیادہ ہے، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم یا اہم چیز کیوں نہ ہو، اس کے خریدار موجود نظر آرہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے لیے وہی چیز مہنگی ہوتی ہے جو ہماری قوت خرید میں نہ آسکے جسے ہم خرید نہ سکیں۔ آپ کے پاکستان میں لوگ جس طرح رہتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، اس سے قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی غریب ملک ہے۔
جتنی رقم آپ کے اس ملک پاکستان میں مختلف قسم کی عیاشی اور تعیشات پر خرچ کی جاتی ہے، دنیا میں کسی اور ملک میں، میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح خرچ کی جاتی ہو۔ کھانے، پینے اور رہنے پر بے پناہ یہاں خرچ کیا جاتا ہے۔ معاف کیجئے گا، آپ کے ملک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، ذاتی نمود ونمائش کے لیے فضول خرچ کیا جاتا ہے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ منصوبہ بندی سے خرچ کریں تو آپ کو قطعی کسی سے کسی بھی قسم کا نہ تو قرضہ لینا پڑے نہ کسی کی برتری تسلیم کرنا پڑے۔ میں تو حیران ہوں کہ آپ کے حکمراں بھی بڑی فضول خرچی کرتے ہیں۔ آپ کی حکومت میں مرکزی اور صوبائی سطح پر بے شمار وزیر، وزیر مملکت اور پھر ان پر طرّہ یہ کہ ان کے مشیران بھی ہوتے ہیں، جبکہ اب بھی یورپی ممالک اور تمام ترقی یافتہ ممالک میں نہ تو اس قدر وزیر ہوتے ہیں نہ اس قدر وزارتیں ہوتی ہیں۔
آپ کی حکومت نے بِلا ضرورت اور بِلا جواز سیکڑوں قسم کی وزارتیں بنا کر اپنے اخراجات میں بے پناہ اضافہ کیا ہوا ہے۔ مثلاً آپ کے شعبے سے متعلق ہی ایک بات آپ کو بتاتا ہوں کہ یہاں تقریباً تمام سرکاری دفاتر میں مختلف اخبارات سرکاری طور پر مہّیا کئے جاتے ہیں جبکہ دفاتر تو اخبار بینی کے لیے نہیں ہوتے، کام کے لیے ہوتے ہیں لیکن تمام افسران اور ماتحت پہلے تو آتے ہی تاخیر سے اور آتے ہی وقت کا ضائع کرتے ہوئے پہلے بہت سے خرافاتی عمل کرتے ہیں پھر اخبارات پڑھتے ہیں اس کے بعد ہی اپنے فرائض کو سر انجام دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، ایسے ہی دیگر معاملات میں بے جا اخراجات کئے جاتے ہیں اگر مناسب طریقے سے اخراجات کئے جائیں اور تمام فضول خرچی روک دی جائے تو یقینا آپ خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ آج کل آپ کے یہاں مختلف قسم کے ٹیکسوں کے حصول کے لیے حکومت نے مہم چلا رکھی ہے لیکن میرے سروے کے مطابق آپ کے لوگ ٹیکس دینے کی جگہ رشوت دے کر ٹیکس معاف کرانا یا کم کرانا پسند کرتے ہیں اور بعض اوقات مقررہ ٹیکس سے زیادہ رشوت دینے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ رشوت، بدعنوانی اور کرپشن کا آپ کے یہاں بہت شور سنائی دیتا ہے لیکن اس کا تدارک نہیں کی جاتا اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ یہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے، ہر آدمی چاہتا ہے کہ جلد از جلد میرا کام ہو جائے چونکہ اس کی جیبوں میں پیسے بھرے ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرکے فوراً سے پیشتر اپنا کام کرانا چاہتا ہے اور کرا بھی لیتا ہے پھر الزام دیتا ہے کہ کام کرنے والے کو کہ پیسہ لیے بغیر کام نہیں کرتے، اگر تمام لوگ آپ کے ملک کے یہ فیصلہ کرلیں کہ آج سے کسی کو بدعنوانی یا کرپشن کے لیے کوئی رشوت نہیں دیں گے تو پھر وہی لوگ جو آج بغیر پیسوں کے کام نہیں کررہے، وہ اپنی نوکریاں بچانے کے لیے بغیر پیسہ لیے کام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن اتنا صبر کون کرے گا۔ معاشیات کا اصول ہے جس چیز کی جتنی طلب ہوتی ہے اگر اس کی رسد اس قدر نہ ہوسکتی ہو تو اس کی قیمت از خود بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ ہر خریدار اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہر وہ قیمت ادا کرنے پر تیار ہو جاتا ہے جو طلب کرنے والا طلب کررہا ہوتا ہے، یہی سبب ہے قیمتوں میں اضافے کا اور اگر کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے اور خریدار اسے نہیں خریدتے تو پھر تمام دنیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ تاجر اُن کو اونے پونے یا پھر بطور سیل فروخت کرتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر اب بھی کم قیمت کرکے نہ فروخت کیا گیا تو پھر یہ چیزیں فروخت ہونے سے رہ جائیں گی اور ان میں لگا ہوا سرمایہ ڈوب جائے گا لیکن اگر خریدار اسے اس کی طلب کردہ قیمت پر خریدتا رہتا ہے تو پھر وہ کیونکر کم دام کرکے اپنی چیز فروخت کرے گا۔ آپ کے ملک کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ لوگوں کے پاس سرمائے کی کمی نہیں، بس وہ اسے خرچ کرتے چلے جارہے ہیں، جائز یا ناجائز کا تصّور رہا ہی نہیں پھر آپ کے یہاں سب سے بڑی کمی ملکی اور قومی ضمیر کی ہے، سب لوگوں کو ملک و قوم کی نہیں صرف اور صرف اپنی ذات کی فکر ہے، ملک ڈوبتا ہے تو ڈوبتا رہے۔ ہم کیوں کسی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک خرابی ہی خرابی پھیلتی جارہی ہے اور اس کا علاج کوئی نہیں کررہا۔‘‘
باتیں تو انہوں نے اور بھی بہت سی اور بھی کیں جو بہت ہی تلخ تھیں لیکن ہم جواب دینے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں تھے اس لیے کہ یہ سب وطنِ عزیز میں ہو رہا ہے۔ تاویل سے ہٹ کر کیا واقعی مِن حیث القوم ہمارے پاس ان باتوں کا کوئی جواب ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں کرتے ہیں ہوں کہ کے لیے خرچ کی تو پھر
پڑھیں:
کینال منصوبوں سے سندھ اور پنجاب کے کسانوں کو نقصان ہوگا، سعید غنی
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ کے صوبائی وزیر نے کہا کہ سی سی آئی (کونسل آف کامن انٹرسٹس) کا اجلاس فوری بلایا جائے تاکہ وفاق صوبوں کے تحفظات سنے، اگر ضرورت پڑی تو سی سی آئی کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی کے جوائنٹ سیشن میں بھی جایا جا سکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے کینال منصوبوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہروں کا معاملہ سندھ اور پنجاب دونوں کے لیے نہایت اہم ہے اور بارہا نشاندہی کے باوجود اس مسئلے پر مناسب توجہ نہیں دی جا رہی۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ کینالوں کے بننے سے سندھ اور پنجاب کے کسانوں کو نقصان ہوگا، جب پانی کی قلت پہلے ہی ہے تو کیسے مزید کینالیں بنائی جا سکتی ہیں؟ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس وقت سندھ اور پنجاب میں پانی کی شدید قلت ہے اور موجودہ پانی سے بھی اس سال فصل ممکن نہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ سندھ کے عوام کا مقدمہ ہر فورم پر لڑیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ کینال منصوبے کو صرف جلسوں کے ذریعے نہیں بلکہ اسمبلی کے اندر بھی روکا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ سی سی آئی (کونسل آف کامن انٹرسٹس) کا اجلاس فوری بلایا جائے تاکہ وفاق صوبوں کے تحفظات سنے۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو سی سی آئی کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی کے جوائنٹ سیشن میں بھی جایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو ہمارے خلاف بات کرتے ہیں، ان کے پاس خود کوئی آئینی یا سیاسی فورم موجود نہیں۔ انہوں نے عمرکوٹ کے حالیہ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔