دانش تیمور نے 4 شادیوں سے متعلق اپنے بیان پر معافی مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
معروف پاکستانی اداکار اور میزبان دانش تیمور نے اپنے 4 شادیوں سے متعلق بیان پر معافی مانگ لی۔
دانش تیمور حال ہی میں اپنی رمضان ٹرانسمیشن کے دوران دیے گئے ایک بیان کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں، نجی ٹی وی پر نشر ہونے والے اس شو میں دانش تیمور نے 4 شادیوں سے متعلق بات کی تھی، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردِعمل دیا۔
دانش تیمور نے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ مجھے 4 شادیوں کی اجازت خدا کی طرف سے ہے، میں کر نہیں رہا ’فی الحال‘ یہ اور بات ہے۔
ان کے اس بیان میں ’فی الحال‘ کے لفظ نے تنازع کو جنم دیا کیونکہ کئی سوشل میڈیا صارفین اور مداحوں نے اسے اس طرح لیا کہ گویا وہ مستقبل میں مزید شادیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ معاملہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور مداحوں نے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔
شدید تنقید کے بعد دانش تیمور نے اپنے مداحوں کے لیے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے بیان پر معذرت کی اور اپنی بات کو مزید واضح کیا۔
ویڈیو میں دانش تیمور نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ سب مجھ سے ناراض ہیں، کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی عائزہ خان کی بے عزتی کی ہے، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتا ہوں، میں عام طور پر ’فی الحال‘ کا لفظ بہت زیادہ استعمال کرتا ہوں اور اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ میں اس وقت کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچ رہا، میں ہمیشہ حال میں جیتا ہوں اور مستقبل کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا، کیونکہ ایک دن ہم سب نے مر جانا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ میں نے غلطی سے یہ لفظ مولانا صاحب کے ساتھ گفتگو کے دوران استعمال کیا، لیکن اگر آپ سب کو میری اس بات سے تکلیف پہنچی ہے تو میں دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں۔
دانش تیمور کے بیان پر جہاں تنقید ہو رہی تھی، وہیں مداحوں میں یہ چہ مگوئیاں بھی شروع ہو گئی تھیں کہ کہیں ان کے اور عائزہ خان کے درمیان اختلافات تو نہیں؟ تاہم اس ویڈیو کے بعد عائزہ خان نے بھی ردِعمل دیا اور دانش تیمور کے حق میں تبصرہ کرتے ہوئے ان سے محبت کا اظہار کیا۔
عائزہ خان نے پوسٹ پر کمنٹ میں لکھا کہ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، خدا ہمیں ہمیشہ ساتھ رکھے۔
دانش تیمور کی وضاحت کے بعد ان کے مداحوں میں ملا جلا ردِعمل دیکھنے کو ملا، کچھ لوگوں نے ان کے معذرت خواہانہ انداز کو سراہا اور انہیں سپورٹ کیا، جبکہ کچھ صارفین نے کہا کہ انہیں اپنے الفاظ کے انتخاب میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دانش تیمور نے کہ میں
پڑھیں:
فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’ علی الاقرب فالاقرب‘‘ ، ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔