کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بار پھر پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید سے متعلق سوالات پر براہ راست جواب دینے سے گریز کیا ہے۔

ترجمان ٹیمی بروس نے بدھ کی بریفنگ کے دوران دبائو پر “کسی دوسرے ملک کے اندرونی فریم ورک” پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ آیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران کی قید کے حوالے سے کوئی کارروائی کریں گے۔ٹیمی بروس نے امریکی خارجہ پالیسی کے وسیع تر خدشات کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

بروس سے یہ سوال بدھ کو محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران ایک پاکستانی اخبار کی نمائندگی کرنے والے صحافی نے کیا۔

صحافی نے سوال کیا تھا کہ کیا امریکی صدر ٹرمپ عمران خان کو “پارلیمنٹ میں اکثریتی نشستوں کے ساتھ مقبول ترین رہنما” کے طور پر جیل میں ڈالے جانے کے حوالے سے “کسی قسم کا اقدام” کریں گے۔

صحافی نے مزید یہ بھی بتایا کہ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان کی جمہوریت، خواتین کے حقوق وغیرہ کو “تباہ کیا گیا”، محکمہ خارجہ کے ترجمان سے پوچھا کہ کیا نئی امریکی انتظامیہ کچھ کرے گی کیونکہ امریکا میں اس کے ہزاروں نئے ووٹرز اور لاکھوں پاکستانی توقع کر رہے ہیں کہ وہ [ٹرمپ] کارروائی کریں گے۔

پاکستان، عمران خان یا ملک سے متعلق کسی بھی چیز کا براہ راست ذکر کیے بغیر، ٹیمی بروس نے واضح طور پر کہا کہ وہ “کسی دوسرے ملک کے اندرونی فریم ورک پر تبصرہ نہیں کریں گی”۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے آٹھ ہفتے ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ بہت کچھ ہو رہا ہے اور امریکی صدر کے ارادے اور اقدامات کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے سوال کیا جاسکتا ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ روبیو دونوں نے “یہ واضح کر دیا ہے” کہ “ہمیں دنیا کی پرواہ ہے، ہمیں اپنے پڑوسیوں کی پرواہ ہے، ہمیں اس بات کی پرواہ ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

دو ہفتوں میں یہ دوسرا موقع ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی قید سے متعلق سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا ہے۔

اس سے قبل 6 مارچ کو میڈیا بریفنگ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عمران خان کے لئے متوقع حمایت پر وضاحت طلب کی گئی تھی، تاہم ترجمان نے اس کے بعد بھی سوال کو ٹال دیا تھا۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ

فائل فوٹو

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، افغانستان میں منظور قرارداد کا مسودہ نہیں دیکھا۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کا ان کے شہری کی جانب سے کسی قسم کی دہشت گردی کو ماننا مثبت ہے، اس کے باوجود ہمیں افغان قیادت سے تحریری صمانتیں چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان بھیجا جانے والا یو این کا امدادی قافلہ ہماری سائیڈ سے کلیئر ہے، یہ طالبان پر ہے کہ وہ اس امدادی قافلے کو وصول کرتے ہیں یا نہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی قیادت کے اشتعال انگیز اور متنازع بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے نفرت آمیز بیانات قابلِ مذمت ہیں اور یہ بیانات خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

یو اے اِی سے متعلق کمیٹی کا بیان پرانے ڈیٹا پر مبنی ہوسکتا ہے، ترجمان دفتر خارجہ

طاہر حسین اندرابی نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مسائل کا بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا کے صدر کے دورے کے دوران 8 معاہدوں پر دستخط کیے گئے، صحت، حلال خوراک سمیت دیگر شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال ہوا۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو افسوس ہے کہ بھارت نے سارک پراسیس کو روکا ہوا ہے، بھارت نے یہ پہلی مرتبہ سارک کے عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ میں قیدیوں کے تبادلے کا باقاعدہ معاہدہ نہیں ہے، معاہدہ نہ ہونے کے باعث کیس ٹو کیس بیسز پر معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چوہدری اسلم کی بیوہ نے فلم ’دھریندر‘ کا جواب دینے کا ارادہ کرلیا
  • فیض حمید کی سزا فوج کا اندرونی معاملہ ہے، ترجمان تحریکِ انصاف کا تبصرے سے گریز
  • عدالت نے سیما ضیا کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کیے جانے سے متعلق درخواست نمٹا دی
  • فیض حمید 9 مئی میں براہ راست ملوث، پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطے میں تھے، معروف صحافی کا دعویٰ
  • سندھ، تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان
  • ناروے کے سفیر وزارتِ خارجہ میں طلب، ڈیمارش سے متعلق سوالات
  • پاکستان اور برطانیہ میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں: دفتر خارجہ
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • سندھ میں موسم سرما کی سالانہ تعطیلات کا اعلان
  • ٹرمپ انتظامیہ کا ویزہ کی درخواست دینے والوں کی 5 سالہ سوشل میڈیا سرگرمیاں جانچنے کا منصوبہ