WE News:
2025-04-22@18:58:03 GMT

رمضان حاضر تبسم غائب

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کی عبادات میں میں روزے اور تلاوت کے بعد صدقہ تیسری بڑی عبادت ہے اور ستم دیکھیے کہ اس ماہ ہمارے چہروں سے وہ تبسم ہی بالکل غائب ہوجاتا ہے جسے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ قرار دیا ہے۔ مسلمان کے پاس اس ماہ دینے کے لیے روپیہ پیسہ تو ہوتا ہے مگر تبسم ناپید ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ تبسم خرچ ہوکر ناپید ہوجاتا ہے بلکہ وہ دیگر اشیا کی طرح اس کی بھی جیسے ذخیرہ اندوزی کر لیتا ہے۔ اس ماہ آپ جسے بھی دیکھیے چہرے پر یا تو طیش کے آثار ہوں گے یا بلا کی ایسی سنجیدگی جیسے ڈاکٹر نے میڈیکل رپورٹس پڑھ کر کوئی بری خبر سنادی ہو۔ تبسم ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔

حالانکہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں خدا نے ایک طرف ثواب کے انبار لگا رکھے ہیں تو دوسری جانب اس انبار کے لوٹ کی ایسی آسانی پیدا فرمادی ہے کہ شیطان کو ہی قید کرلیا جاتا ہے جو اس ثواب کو لوٹنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو یہ مسرت کے لمحات سے بھرپور مہینہ ہے۔ لیکن ہمارے چہروں پر اضافی مسرت کے آثار تو چھوڑیے وہ معمول کا تبسم بھی غائب ہوجاتا ہے جو سال کے دیگر 11 مہینوں میں نظر آتا ہے۔ عجیب بات یہ کہ رمضان میں بھی صرف روزے کی حالت میں ہی یہ تبسم غائب رہتا ہے افطار کے بعد تو ایک حد تک لوٹ آتا ہے۔ کیا اس کا تعلق بھوک اور پیاس سے ہے؟ اور وہ بھی ایسی بھوک اور ایسی پیاس جس میں فاقوں کا ہولناک خوف شامل نہیں ہوتا بلکہ اس کا اختتام چند گھنٹے بعد انواع اقسام کی نعمتوں پر ہونا طے ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کون جنتی کون دوزخی؟

 نہیں! یہ تبسم چند گھنٹے کی بھوک پیاس کے ہاتھوں نہیں بلکہ کچھ علتوں کے سبب رخصت ہوتا ہے جن کا ہم نے خود کو اسیر کر رکھا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ پان، سگریٹ، نسوار میں سے کسی ایک علت کے ضرور اسیر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اقلیت میں ہیں جو ان 3 میں سے کسی ایک نشے کی اسیری میں نہ ہوں لیکن ایسوں کی بھی اکثریت چائے کی تو ضرور ہی اسیر ہوتی ہے جو بجائے خود دنیا کے چند سب سے زیادہ مستعمل نشوں میں سے ہے۔ چائے تو اس درجہ عام و مرغوب نشہ ہے کہ اس کی لت مائیں ہی اپنے بچوں کو لگاتی ہیں۔ 2 سے 3 سال کی عمر میں مائیں اپنے بچوں کو 2 وقت چائے کی باقاعدہ عادت ڈالتی ہیں بس بچے کے بچپنے کا لحاظ یوں فرما لیتی ہیں کہ اس ابتدائی عمر میں بچوں کی چائے میں پتی کی مقدار کم رکھتی ہیں جس کا آسان سا ٹوٹکا وہ یہ کر لیتی ہیں کہ بچے کی چائے کے کپ میں اضافی دودھ ڈال لیتی ہیں۔

ماؤں کی توجہ اس جانب جاتی ہی نہیں کہ چائے نہ صرف یہ کہ انسانی ضرورت نہیں بلکہ یہ محض ایک مضر صحت نشہ ہے جو انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے لہٰذا اور نہیں تو مادری جبلت سے ہی کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کو اس نشے سے بچا لیا جائے۔ کوئی بھی ماں یہ سوچنے کا تکلف گوارا نہیں کرتی کہ وہ اپنے بچے کو اپنے ہی ہاتھوں محض 2،3 سال کی عمر میں ایک نشے کا عادی بنا رہی ہے جس کا یہ ساری زندگی اسیر رہے گا۔ اور اسیر بھی اس حد تک کہ رمضان جیسے شاندار مہینے میں روزے کی حالت میں پورا دن محض اس لیے اس کی شکل پر 12 بج رہے ہوں گے کہ اسے چائے کی طلب ستا رہی ہوگی۔

ان ’جائز نشوں‘ میں بسا اوقات صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ یہ چھوڑنے سے بھی چھوٹتے نہیں۔ ہمارے بہت ہی مہربان ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے چند برس قبل اپنے معدے کے علاج کے سلسلے میں مشاورت کی تو دوران گفتگو فرمانے لگے کہ پان کی علت سے جان چھڑانی ہوگی ورنہ دوا عارضی افاقہ تو دے گی مگر پان کے ہوتے مرض سے جان نہ چھوٹے گی۔ جو شخص 35 برس سے پان کھا رہا ہو وہ اس قسم کے مشوروں کا بھی عادی رہا ہوتا ہے سو اسے ہر بار بس اتنا ہی تکلف کرنا پڑتا ہے کہ معالج سے توڑنے کے لیے ایک وعدہ مزید کر لیا جائے۔ مگر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے ساتھ اس واردات کی ہمت نہ ہوئی۔ یوں ہم نے سالہا سال بعد پان چھوڑ دیا۔ اور چھوڑا بھی آن واحد میں۔ نتیجہ یہ کہ سال بعد شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔ دماغی امراض کے معالج سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ پان بتدریج کی بجائے فوراً ترک کرنے سے دماغی کیمیکلز کا توازن بگڑ گیا ہے۔ یوں پان واپس ہماری زندگی میں داخل ہوگیا۔

مزید پڑھیے: مہذب اقوام کا مستقبل

 پان، سگریٹ اور نسوار وہ آفت ہے جس کے عادی روزہ دار کے ساتھ ظہر کے بعد گفتگو سے قبل احتیاطاً آیت الکرسی اور معوذتین دم کرنے پڑتے ہیں تاکہ اس کے شر سے تحفظ میسر رہے۔ یہ جو موضوع ہم نے آج چھیڑا ہے اس کا ہم خود شکار رہے ہیں۔ ہر  رمضان ہمارے ہاں بھی یہی احتیاط ہوتی رہی کہ گھر والے ظہر کے بعد تو دم درود کے سہارے ہم سے ضروری گفتگو فرما لیتے لیکن عصر کے بعد وہ دم درود پر بھی بھروسا نہ کرتے اور ہم سے کسی آتش گیر مادے کی طرح فاصلے پر رہتے۔ چنانچہ ایک مدت بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ یہ ہم کس قسم کا رمضان گزارتے ہیں؟ ہم روزے کی حالت میں ظہر سے افطار تک اپنی ہی فیملی کے لئے ایک شر کیوں بن جاتے ہیں ؟ کیا ہمارا یہ رویہ خود روزے کی حرمت کے خلاف نہیں ؟ چنانچہ پچھلے 5 رمضانوں سے خود پر جبر کی جد و جہد شروع کردی۔ طے کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم طیش کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے، بلکہ طیش پر حاوی ہونے کی کوشش کریں گے۔

یقین جانیے معمولی سی ہی مشکل پیش آئی۔ طریقہ یہ اختیار کیا کہ جوں ہی کوئی بات ناگوار لگتی ہے اور نتیجے میں غصے کی کیفیت سر اٹھانے لگتی ہے تو ہم اسی لمحے اسے دبا دیتے ہیں جس کی سبیل یہ ہوتی ہے کہ خود کو یاد کرا دیتے ہیں کہ یہ خیروبرکت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا ہم سے شر صادر نہیں ہونا چاہیے۔ جب ہم نے پہلی بار اس پر عمل شروع کیا تو ظہر تو ظہر عصر کے بعد بھی ہمارے چہرے کی مسکراہٹ اور ہلکے پھلکے قہقہے دیکھ کر گھر والے بے یقینی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ سب سے دلچسپ تجربہ لکھنے کا رہا۔ پان سگریٹ جیسی علتوں کا اسیر روزے کی حالت میں صبح 8،10 بجے بھی کچھ نہیں لکھ سکتا جبکہ ہم ان پچھلے چند رمضانوں میں عصرکے بعد بھی لاتعداد تحریریں لکھ چکے اور کوئی دقت پیش نہ آئی۔

مزید پڑھیں: جھوٹ کو سچ بنانے والے

حالانکہ رمضان میں عصر کے آس پاس تو وہ اہل قلم بھی کچھ نہیں لکھ پاتے جو صرف چائے کے ہی عادی ہوں۔ چائے کے سلسلے میں اپنا معاملہ یہ ہے کہ پورے دن میں ایک ہی کپ کی عادت ہے اور وہ بھی صبح ناشتے میں، سو اس کی طلب کا وقت مقرر ہے، ناشتے کے علاوہ کبھی چائے کی طلب ہوتی ہی نہیں- سوال یہ ہے کہ ہم نشہ ٹوٹنے کے نتائج پر حاوی کیسے ہوئے؟ جواب یہ ہے کہ قوت ارادی کی مدد سے ہوئے۔ انسان کو اللہ سبحانہ و تعالی نے مسخر کرنے کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ جو انسان ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کر لیتا ہے، فضاؤں میں اڑ رہا ہے اور سمندر کی تہہ تک اتر رہا ہے، یہ اس کی تسخیری صلاحیتوں کا ہی اظہار ہے۔ اور تسخیر کی روح اس کی قوت ارادی ہے۔ سو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسی قوت ارادی سے وہ اپنی منفی کیفیات کو تسخیر نہ کر سکے؟ یہ قوت ارادی کے استعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اب شرپسند روزہ دار نہیں ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

تبسم چائے رمضان روز اور مسکراہٹ روزہ مسکراہٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چائے روزے کی حالت میں قوت ارادی ہوجاتا ہے کہ رمضان ہوتا ہے چائے کی ہے اور کے بعد ہیں کہ

پڑھیں:

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کسی شاعر نے توکہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔

پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)

 شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔

شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔

 ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔

 اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔

پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔

 گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔

 بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟

 اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔

انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟

امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔

پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔

اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟

 امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔

 تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا

اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔

 ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔

 ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • گرین اور بلیک کے بعد اب نیلی چائے، حیرت انگیز فوائد
  • بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • مسلم دنیا کو عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے فکر اقبال سے رجوع کرنا ہوگا
  • ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ رمضان توقیر کا تحصیل پہاڑ پور کا دورہ
  • لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات 
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے