WE News:
2025-04-22@11:19:04 GMT

صارفین کے بعد شوبز انڈسٹری سے بھی دانش تیمور پر تنقید

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

صارفین کے بعد شوبز انڈسٹری سے بھی دانش تیمور پر تنقید

دانش تیمور پاکستان کے ایک بڑے اسٹار ہیں اور وہ آج کل گرین ٹی وی پر رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کر رہے ہیں۔ تاہم اسی کے وہ انٹرنیٹ پر تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی سپر اسٹار اہلیہ عائزہ خان کے سامنے ایک ایسا بیان دیا تھا جو سامعین کو نہیں بھایا۔

یہ بھی پڑھیں:دانش تیمور اپنی فیملی کے ساتھ معیاری وقت کیسے گزارتے ہیں؟

دانش تیمور نے کہا کہ بطور مرد انہیں 4 شادیاں کرنےکا حق ہے لیکن وہ فی الحال ایسا نہیں کر رہے۔

اس بیان کے بعد دانش تیمور کو ہر جانب سے تنقید کا سامنا ہے، یہ سب اس کے باوجود ہے کہ وہ اپنے بیان کی وضاحت 2 بار کر چکے ہیں، لیکن شاید سوشل میڈیا صارفین ان کی سننے کے موڈ نہیں۔

دانش تیمور پر صارفین کی تنقید کے ساتھ اب اس بحث میں شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد بھی کود گئے ہیں۔ مثلاً ایک جانب فریحہ الطاف نے ان کے بیان کو موضوع گفتگو بنایا تو دوسری طرف مشی خان نے دانش تیمور کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

بہرحال دانش تیمور پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اس بیان سے اپنی اہلیہ عائزہ خان کو شرمندہ کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دانش تیمور عائزہ خان فریحہ الطاف مشی خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: دانش تیمور فریحہ الطاف دانش تیمور

پڑھیں:

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل
  • منرلز بل پر تنقید کے پیچھے پورا مافیا، عمران خان سے ملاقات میں بات کلیئر ہو جائےگی، علی امین گنڈاپور
  • بھارتی فلم انڈسٹری کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے ہدایتکار کون ہیں؟
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
  • گانچھے میں کل دانش سکول کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • حکومت فیشن اور تخلیقی انڈسٹری کی ترقی کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کریگی، جام کمال