پشاور‘ خیبر (نوائے وقت رپورٹ) پاک افغان طورخم تجارتی گزرگاہ 25 روز بعد کھول دی گئی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق طورخم تجارتی گزرگاہ سے دو طرفہ تجارت شروع ہوگئی۔  تجارتی سامان لیکر پاکستانی کارگو گاڑیاں افغانستان میں داخل ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ افغانستان سے بھی کارگو گاڑیاں پاکستان میں داخل ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ طورخم سرحد پیدل آمدورفت کے لئے دو روز بعد کھولی جائے گی۔ پاکستانی جرگہ کے سربراہ جواد حسین کاظمی نے کہا طورخم سرحد پر متنازع تعمیر کے خاتمے پر افغان حکام رضامند ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جے سی سی اجلاس تک فائر بندی رہے گی‘ پاکستانی سکیورٹی حکام نے بھی افغان حکام کے فیصلے پر اظہار اطمینان کیا ہے۔ واضح رہے کہ تین ہفتوں سے زائد عرصے قبل طورخم سرحد سے متصل افغان فورسز کی طرف سے تعمیرات پر کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور کشیدگی کے باعث طورخم سرحدی گزر گاہ ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کر دی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ میری پارٹی کا تو انہوں نے نام ہی ختم کر دیا۔ میں پی ٹی آئی کا وزیراعلیٰ ہوں اور آزاد حیثیت میں بیٹھا ہوں۔ مشاورت کیلئے ہماری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات تک نہیں کرائی گئی۔ خفیہ اطلاعات پر آپریشن چل رہے ہوتے ہیں۔ صرف قرارداد پاس کرنے سے نہیں ہوتا، آپریشن سے پہلے پورا پلان بنانا ہو گا۔ سلامتی کمیٹی کا اجلاس میٹنگ کم اور پریزنٹیشن زیادہ تھی۔ خیبر پی کے آپریشن کی تو ہم کسی صورت اجازت نہیں دیتے۔ پہلے بھی آپریشن کئے گئے اس کا فائدہ نہیں الٹا نقصان ہوا۔ افغانستان کے ساتھ ہماری طویل سرحد ہے‘ بات چیت ضروری ہے۔ افغانستان سے بات کرنے کیلئے ٹی او آرز بنائے، وفاقی حکومت کو بھیجے دو ماہ ہو گئے۔ حامد الحق پر حملے سے متعلق ابھی کوئی چیز کنفرم نہیں ہوئی۔ عوام کے بغیر جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ عوام کا اعتماد اداروں پر سے اٹھ چکا ہے۔ نو مئی میں جو ہوا جس نے پارٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی کی‘ مذمت کرتا ہوں۔ پارٹی پالیسی میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ عسکری پوائنٹس پر توڑ پھوڑ کریں گے۔ فیصل واوڈا جیسے نامعقول لوگوں کو ایسی میٹنگز میں نہ بلایا کریں۔ ایسے نامعقول کو بلاتے ہیں تو پھر ہمیں نہ بلایا کریں۔ میں نے میٹنگ میں کہا کہ توڑ پھوڑ پارٹی پالیسی نہیں تھی۔ اگر جذبات یا نادانی میں پارٹی پالیسی کے خلاف کیا گیا تو یہ اتنی بڑی غلطی نہیں کہ ملٹری ٹرائل ہو۔ میرا مؤقف تھا اور ہے کہ ان کارکنوں کو سزا ختم کر کے رہا کیا جائے۔ بانی پی ٹی آئی سے متعلق میٹنگ میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ آگے بڑھنے کیلئے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنا چاہئے۔ گڈ بکس میں آنے کیلئے غلامی کرنا پڑے تو میں ایسا نہیں‘ آزاد انسان ہوں۔ بانی کا فالوور ہوں وہی میرے لیڈر ہیں۔ فیصل واوڈا‘ طلال اور خواجہ آصف کہتے ہیں کہ علی امین ان سے ملا ہوا ہے۔ یہ ’’ان‘‘ کون ہے، اگر فوج ہے تو کیا فوج سے ملنا غداری ہے؟۔ میرے والد فوجی تھے ‘ فوج پر تنقید ہوتی ہے تو دکھ ہوتا ہے۔ ہم کوئی اینٹی آرمی یا اینٹی سٹیٹ ہیں؟۔ کچھ لوگ ایسا بیانیہ جوڑ کر گھوم رہے ہیں یہ تحریک انصاف یا پاکستان کے خیرخواہ نہیں۔ آرمی چیف سے بالکل ٹھیک تعلقات ہیں۔ آرمی چیف صوبے کیلئے ہمارے جائز حقوق کو سپورٹ کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے پر اختلاف ہے۔ میرے اندازے کے مطابق بارڈر اور اس طرح ساڑھے 22 ہزار کے لگ بھگ جنگجو ہیں۔ اندازے کے مطابق ساڑھے 9 سے ساڑھے 11 ہزار کے قریب جنگجو ہمارے علاقے میں آ چکے ہیں۔ ان میں افغان بھی شامل ہیں وہ بھی ساتھ آئے ہیں۔ عوام ساتھ ہوں اور نیت صاف ہو تو ان سے نمٹ لیں گے۔ اب حکومت کی عملداری ہے یہ آتے ہیں تھوڑی وصولی کی اور چلے گئے۔ ہمارے علاقے میں کچھ ناکے لگانے میں یہ گڈ طالبان بھی ہیں۔ میرے حلقے سے 500 لوگوں کو اٹھایا گیا‘ مجھ پر 100 سے زائد دہشتگردی کے مقدمات ہیں۔ گل بہادر اور مفتی ولی پر اتنی ایف آئی آرز نہیں جتنی مجھ پر اور بانی پی ٹی آئی پر ہیں۔ اب حکومت کی عملداری ہے یہ۔ ادھر افغانستان سے مذاکرات کیلئے بنائے گئے جرگہ ارکان بھی گنڈا پور سے ملے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی

پڑھیں:

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا حسن اخوند نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین اپنے ہمسایوں سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔

ملا حسن اخوند نے زور دیا کہ عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے ان کی انتظامیہ کے ’قول و فعل‘ کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسحاق ڈارکا یہ دورہ کئی ماہ کے سفارتی تعطل، سرحدی جھڑپوں اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد اسلام آباد اور افغان طالبان انتظامیہ کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے عمل کی ایک نئی بنیاد ہے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ افغان عسکریت پسند گروہ سرحد پار حملے کرتے ہیں اور یہاں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں، اس کے جواب میں، پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فوجی حملے کیے ہیں اور افغان شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر ملک بدری مہم شروع کی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) نے رواں ہفتے کے اوائل میں کابل میں نئے مذاکراتی عمل کے تحت ملاقات کی تھی جس کا مقصد اعتماد اور تعاون کی بحالی ہے۔

اسحٰق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ’اہم تشویش‘ قرار دیا تھا۔

افغان وزیر اعظم کے دفتر نے پاکستان میں مقیم افغانوں کی بے دخلی کے معاملے پر کہا کہ پاکستان کے یکطرفہ اقدامات مسئلے کو مزید شدت دے رہے ہیں اور حل کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ بن رہے ہیں، بیان کے مطابق افغان وزیراعظم نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کرے۔

افغان وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے، وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال اور ان کی جبری وطن واپسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انسانی سلوک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس وقت پاکستان میں مقیم یا واپس آنے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اسحٰق ڈار کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بدری کی مہم میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق یکم سے 13 اپریل کے درمیان طورخم اور اسپن بولدک سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے تقریباً 60 ہزار افغان باشندے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہوئے۔

یہ بے دخلی دوسرے مرحلے کا حصہ ہے جس کا مقصد 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو نشانہ بنانا ہے جن کے پاس اب غیرقانونی قرار دیے جاچکے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) اور دیگر دستاویزات کی کمی ہے۔

انسانی ہمدردی کے اداروں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر دباؤ کے بارے میں متنبہ کیا ہے جو واپس آنے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کررہے ہیں، جن میں سے بہت سوں کے پاس وسائل یا پناہ گاہوں کی کمی ہے۔

دریں اثنا، پاکستان نے یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے 1.3 ملین سے زائد افغانوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد چھوڑنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ انہیں 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے۔

دریں اثنا، مغربی ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں کی نقل مکانی کا عمل تیز کریں جن سے 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی ممالک میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، پاکستانی حکومت نے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، جس کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری شروع ہو جائے گی جو اس وقت تک کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہوئے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے اپنے بیان میں پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے واپس بھیجے جانے والوں کے خدشات کو دور کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، عظمی بخاری
  • ڈار کا دورہ کابل، سیکیورٹی بنیادوں پر کامیابی کیلیے طویل سفر باقی
  • خیبر :ایک ہزار 198غیرقانونی رہائش پذیر افغان شہری ملک بدر
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  •   دیکھتے ہیں گنڈا پور منرلز بل پاس کرائیں گے، یا اپنی نوکری بچائیں گے: گورنر
  • افغانستان کسی کو غلط سرگرمی کیلئے اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دے گا، اسحاق ڈار
  • اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  • افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
  • عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کی درخواست دائر