Express News:
2025-04-22@06:08:29 GMT

دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دہشت گردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملکی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا، جو پونے 6 گھنٹے تک جاری رہا۔

اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کمیٹی نے انسداد دہشت گردی آپریشنز پر سیکیورٹی فورسز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہتے ہوئے دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹرٹیجک اور ایک متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔

کمیٹی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس ختم کرنے، لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کوختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عمل درآمد پر بھی زور دیا۔ کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات، دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار واضح کرنے پر زور دیا۔

قوم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ سیاسی جماعتوں نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہارکیا۔

اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف،آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اہم سیاسی و عسکری حکام نے شرکت کی، تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں نے اس اہم اجلاس کا بائیکاٹ کیا، تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے صوبے کی نمایندگی کے لیے موجود تھے۔ آرمی چیف اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دی۔ پارلیمینٹرینز کے سوالات کے جواب بھی دیے گئے۔

پاکستان کی سلامتی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ‘ نرمی یا لچک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کی رٹ ریاست کے اندر بسنے والے تمام علاقوں پر یکساں قوت سے نافذ ہونی چاہیے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سب کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی جوان اور ان کے اہل خانہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی معیشت کو150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

وزیراعظم کے بیان کردہ اعدادوشمار پر غور کیا جائے توپاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی شدت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ڈیڑھ سو ارب ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ہے‘ ذرا غور کریں اگر پاکستان کی معیشت کو یہ نقصان نہ پہنچتا اور دہشت گردی کی جگہ امن و امان ہوتا تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا کیا عالم ہوتا۔وزیراعظم پاکستان نے مزید کہا ہے کہ شہداء کی قربانیوں کی بدولت پاکستان کا امن بحال ہوا، معیشت سنبھلی اور ملک کی رونقیں بحال ہوئیں۔ پاکستان آج فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔

دہشت گردی کو ایک مرتبہ پھر سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہم سب کو آہنی عزم کا اعادہ کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کا اصل نشانہ عوام کا اتحاد ہے۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں۔ آج کی فیصلہ کن گھڑی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم سوال کریں، کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ آج اس ملک کے25 کروڑ عوام پاکستان اور اس کی سلامتی کے محافظوں، افواج پاکستان و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو ملک، قوم، افواج پاکستان، شہیدوں و غازیوں کے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی اور ان کا اتحادی ہے۔

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے فوج اور عوام کے مابین دراڑ ڈالنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ فوج اور عوام ایک ہیں، ان کے مابین دراڑ ڈالنے کی سازش پہلے کامیاب ہوئی نہ آیندہ ہوگی۔ ایسے شر پسند عناصر کی مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان ہے، تو ہم سب ہیں، ہماری سیاست ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم ایک ہے، ملک میں دہشت گردی کو ہر صورت شکست دیں گے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہم آخری حد تک جائیں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ دہشت گردی اہم قومی مسئلہ ہے جس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں، دنیا کو بھی افغان حکومت کے کردار سے آگاہ کرنا ہو گا، اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مؤثر بنانا ہو گا۔ افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جو آگ پاکستان میں لگی ہے، ہمارے اردگرد رہنے والے مت سمجھیں کہ ان تک نہیں پہنچے گی، دہشتگردوں کی مالی مدد کرنے والوں کا بھی پتہ لگانا ہو گا، افغانستان میں دہشتگردی کا معاملہ بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر اٹھانا ہو گا۔

بیرونی دنیا بھی یہ سب معاملات دیکھے، دنیا خود کو اس خطے سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی۔ پیپلز پارٹی، پاکستان سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہے، انھوں نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے غیر مشروط تعاون اور غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنے صوبے کی داخلی و خارجی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا دہشتگرد افغانستان سے آرہے ہیں‘ میرے لوگ دہشتگرد نہیں‘ مجھے کرسی کی پرواہ نہیں‘ سچی کھری بات کرونگا۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، اے این پی کے ایمل ولی خان، انوار الحق کاکڑ نے بھی اظہار خیال کیا اور اپنی تجاویز کمیٹی کی سامنے رکھیں۔ بعد ازاں اجلاس کے اختتام پر اسپیکرکی درخواست پر آرمی چیف نے دعا کرائی۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم کو بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کوState Hard بنانے کی ضرورت ہے ہم کب تک ایک State Soft کے طور پر بے گناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے، ہم گورننس کے گیپس کو کب تک افواج پاکستان اور شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں،کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں، پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔

 آرمی چیف نے کہا کہ ہم کو بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ علماء سے درخواست ہے کے وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں، اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں، پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا، جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کر سکتے ہیں آج کا دن ان کو یہ پیغام دیتاہے کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولت کاروں کو بھی ناکام کریں گے۔

پاکستان کا آج کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تمام اقسام اور شکلوں کو ختم کرنا ہے۔ ایسا کیے بغیر پاکستان جدید دنیا کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ دہشت گردی کے سرپرستوں ‘سہولت کاروں اور بینیفشریز گرگٹ کی طرح رنگ تبدیل کر رہے ہیں۔

وہ جمہوریت کا لبادہ بھی اوڑھتے ہیں‘مذہب کا علم بھی اٹھا لیتے ہیں ‘مظلومیت کی دہائی بھی دیتے ہیں اور پاکستان میں نفرتوں کی آبیاری بھی کر رہے ہیں ‘ایک وفاقی اکائی کو دوسری وفاقی اکائیوں کے ساتھ لڑانے کے لیے سازش کرتے ہیں ‘بیانیہ بناتے ہیں اور سوشل میڈیا سمیت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہرذریعے کو استعمال کرتے ہیں ‘یوں دیکھا جائے تو میدان میں جو دہشت گرد اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں ‘وہ در حقیقت ان قوتوں کے پیادے یا لڑاکا فورس ہیں‘اس کے ذریعے وہ پرامن شہریوں میں خوف پیدا کرتے ہیں جب کہ سیاسی منظرنامے میں کنفیوژن کا رنگ بھرتے ہیں ‘دانشورانہ سطح پر موشگافیاں بیان کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گردی کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان دہشت گردی کے گردی کے خلاف دہشتگردی کے کرنے کے لیے پاکستان کو پاکستان کی کی سلامتی پاکستان ا کرنے والے ا رمی چیف کمیٹی نے کا اظہار کرتے ہیں رہے ہیں کے ساتھ گردی کو اور ان عزم کا ملک کی نے کہا

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • صدر مملکت نے 6 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکورٹی فورسز کو سراہا
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • اسد عمر کی 3 مقدمات میں عبوری ضمانت 13 مئی تک منظور