مصطفیٰ عامر قتل کیس، ملزم ارمغان کے والد کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
پراسیکیوشن ذرائع کے مطابق ملزم ارمغان کی انسداد دہشت گردی عدالت میں تکرار محض ایک ڈرامہ ہے، ملزم ارمغان نے والد کو گرفتاری سے بچنے کے لیے امریکہ جانے کا کہا تھا، اگر کامران اصغر قریشی کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ کسی بھی وقت فرار ہوسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں مرکزی ملزم ارمغان کے والد کامران اصغر قریشی کو شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ پولیس نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو اس فیصلے سے آگاہ کردیا۔ عدالت میں جمع کروائی گئی پولیس کی ریمانڈ رپورٹ کے مطابق، ملزم ارمغان نے مصطفی عامر کو قتل کرنے کے فوراً بعد اپنے والد کو اطلاع دی تھی۔ تاہم کامران اصغر قریشی نے پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے بیٹے کو روپوش ہونے کا مشورہ دیا۔ ملزم ارمغان اپنے والد کے مشورے پر شیراز کے ہمراہ اسکردو اور دیگر علاقوں میں روپوش رہا۔ ادھر پراسیکیوشن ذرائع کے مطابق ملزم ارمغان کی انسداد دہشت گردی عدالت میں تکرار محض ایک ڈرامہ ہے۔ ذرائع نے کہاکہ ملزم ارمغان نے والد کو گرفتاری سے بچنے کے لیے امریکہ جانے کا کہا تھا۔ اگر کامران اصغر قریشی کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ کسی بھی وقت فرار ہوسکتا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کامران اصغر قریشی نے والد والد کو
پڑھیں:
بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
پشاور:وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کےد وران کہا کہ میرا بیٹا مجرم ہے تو اسے سزا دیں مگر ایسے غائب نہ کریں۔
ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کے ملازم کمپیوٹر آپریٹر محمد عثمان کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی، جس میں لاپتا شخص کے والد، وکیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے درخواست گزار کو گھر سے اٹھایا۔
وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے بتایا کہ گزشتہ 7 ماہ سے میرے بیٹے کو لاپتا کیا گیا ہے۔ ہم محب وطن ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد وطن کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے کہ اسے غائب کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے بیٹے نے اگر کچھ کیا ہو تو سزا دیں، لیکن اس طرح غائب نہ کریں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹس دیکھنے کے بعد ہم فیصلہ کر سکیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے پولیس سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔