اسلام ٹائمز: شاعری واقعاً ایک بااثر ذریعہء ابلاغ ہے۔ ایران میں شاعری میں پیشرفت اور اچھے شعرا کی تعداد میں اضافہ باعث مسرت ہے۔ ”کمیت“ میں جو اضافہ ہوا ہے خوب ہے البتہ ”کیفیت“ میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہونا چاہیئے۔ فی الحال نوجوان شعراء میں کیفیت سے زیادہ کمیت کا رجحان ہے لیکن میں ان میں جن صلاحیتوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں، ان کی موجودگی میں اگر یہ نوجوان اسی طرح اپنی پیشرفت جاری رکھیں تو انشاءاللہ یہ تمام ”باکیفیت“ بھی ٹھہریں گے۔ ہمارے ہاں باکیفیت اور اعلیٰ شعراء کی کمی نہیں ہے، ہم میں اچھے اور توانا شاعر موجود ہیں، ہم جن شعراء کے حوالے سے منتظر تھے کہ وہ مقام بلند تک رسائی حاصل کرلیں گے وہ آخر کار اس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر
کہا جاتا ہے ”شاعری جزویست از پیغمبری“۔ اہل ایران خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک ایسی ادب دوست اور سخن شناس قیادت میسر آئی ہے جو شعر و ادب سے شغف رکھتی ہے اور خود ایک قادرالکلام شاعر بھی ہے۔ اس سے قبل رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی کا ایک شعری مجموعہ ”دیوان امام“ کے نام سے اہل ذوق کو مطالعے کی سعادت بخش چکا ہے۔ 15 مارچ کی شب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شب ولادت با سعادت کی مناسبت سے فارسی زبان کے بعض شعراء اور اساتذہ نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اس موقع پر ایک محفل شعر و سخن کا بھی انعقاد ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس علمی و ادبی محفل کے شرکا سے جو خطاب کیا وہ یقیناً اپنے اندر لمحہء موجود کے اہل ادب کے لیے بھی رہبری کا سامان رکھتا ہے۔ رہبر نے اپنے خطاب میں جو کچھ فرمایا وہ قارئین کی نذر ہے۔
”الحمدللہ! آج ذمے دارانہ اور انقلابی شاعری عروج پر ہے۔ آج کی رات میرے لیے خوش گوار رات ہے۔ شعر جو پڑھے گئے عموماً خوب تھے۔ یہ اس حد تک ہی نہیں تھے بلکہ اس سے بڑھ کر بعض شعر خوب تر بھی تھے۔ شعر خوانی کی کیفیت اور نکاتِ شعری کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اشعار جو اس سے پہلے نہیں پڑھے گئے، ان کا منبع اور مادہ شعراء کے اندر پہلے سے موجود تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک میں تربیت یافتہ شعراء کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایران کے نوجوانوں میں انقلابی اور صحت مندانہ شاعری کی توسیع کی لہر امیدافزاء ہے۔ رواں ہجری شمسی سال میں شعراء کی ادبی سرگرمیوں کی ایک رپورٹ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سال ہمارے ذمے دار اور انقلابی شعراء کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ شاعری ایک اہم اور بے نظیر ہنر ہے۔ انواع و اقسام کے ملکی ذرائع ابلاغ اپنے قوی اور متاثر کن وجود سے شاعری کو الگ نہیں کر پائے ہیں۔
شاعری واقعاً ایک بااثر ذریعہء ابلاغ ہے۔ ایران میں شاعری میں پیشرفت اور اچھے شعرا کی تعداد میں اضافہ باعث مسرت ہے۔ ”کمیت“ میں جو اضافہ ہوا ہے خوب ہے البتہ ”کیفیت“ میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہونا چاہیئے۔ فی الحال نوجوان شعراء میں کیفیت سے زیادہ کمیت کا رجحان ہے لیکن میں ان میں جن صلاحیتوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں، ان کی موجودگی میں اگر یہ نوجوان اسی طرح اپنی پیشرفت جاری رکھیں تو انشاءاللہ یہ تمام ”باکیفیت“ بھی ٹھہریں گے۔ ہمارے ہاں باکیفیت اور اعلیٰ شعراء کی کمی نہیں ہے، ہم میں اچھے اور توانا شاعر موجود ہیں، ہم جن شعراء کے حوالے سے منتظر تھے کہ وہ مقام بلند تک رسائی حاصل کرلیں گے وہ آخر کار اس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں ذمے دار اور انقلابی شعراء شامل ہیں۔
میں نے بارہا اور مکرر یہ بات کی ہے کہ کسی کو بھی شاعری یا شاعری کے علاوہ دوسرے میدانوں میں اپنے ارتقاء اور اپنی توانائی پر قانع اور بالکل مطمئن نہیں ہوجانا چاہیئے۔ کیونکہ آپ ابھی حافظ، سعدی اور نظامی تک نہیں پہنچے ہیں۔ البتہ میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہمارا یہ زمانہ ”سعدی آفرین“ ہو سکتا ہے۔ وہ عوامل جو شاعر کو شاعر بناتے ہیں اور استخدامِ الفاظ پر اسے قدرت عطا کرتے ہیں یا اسے جملہ بندی اور الفاظ کی بندش کا فن سکھاتے ہیں، کیا ہیں؟ یہ ایک مفصل بحث ہے جسے میں اس وقت موضوع سخن نہیں بنانا چاہتا۔ بہرحال یہ زمانہ وہ ہے جس میں شاعر ایک تشویق اور امید رکھتا ہے لیکن اس کی یہ امید اس دردِ دل یا شکایت کی نفی نہیں کرتی جو ہمیشہ سے وہ اپنے دل میں رکھتا ہے۔ ایران میں شاعری کے جنم لینے کے بعد سے یعنی ڈیڑھ ہزار سال قبل سے شعراء کو یہ شکایت رہی ہے۔ آپ یہ دیکھیے کہ کس طرح بزرگ شعراء بادشاہوں کے درباروں سے فیضیاب ہو کر رقم سمیٹتے ہیں اور داد وصول کرتے ہیں۔
شنیدم کہ از نقرہ زد دیگدان
ز زر ساخت آلات خوان عنصری
(میں نے سنا ہے کہ عنصری نے چاندی کا چولھا اور سونے کے کھانے کے برتن بنائے ہیں)
لیکن پھر بھی ان میں سے اکثر زندگی سے شکوہ کرتے رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی کا انتشار اور بگاڑ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ انتشار ایک شاعر کو تو نظر آتا ہے لیکن دوسرے اسے دیکھ نہیں پاتے۔ دوسروں کے پاس کہنے کے لیے وہ زبان نہیں ہوتی جو شاعر رکھتا ہے۔ آج ہمارے شاعر کو سماجی مراعات حاصل ہیں۔ میں مادی مراعات کی بات نہیں کرتا۔ آج الحمدللہ ہمارا شاعر اپنی اجتماعی ذمے داریوں کی برآوری کے لیے مادی مسائل کا شکار نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس کے احترام کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ”شاعر“ ہے۔ ہمارا شاعر شاعری کے ہنر کا اہل ہے اور اس کا یہ ہنر محفوظ ہے۔ ہم نے زمانہء طاغوت میں ایسے شعراء کو دیکھا ہے جو شاعرانِ برجستہ تھے لیکن کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ مثلاً مرحوم ”امیر فیروز کوہی“ بہت بڑے شاعر تھے۔ میری نظر میں وہ اپنے وقت کے بہترین غزل گو شاعر تھے لیکن ان کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ گویا کسی کو ان سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ انہیں کبھی کسی ریڈیو ٹی وی کے کسی پروگرام میں مدعو نہیں کیا گیا۔ لیکن آج کے شاعر کو میڈیا کا تعاون میسر ہے۔
بناء برایں آج کے شاعر کے لیے سعدی، حافظ یا نظامی بننے کے لیے زمینہ ہموار ہے۔ آج ہماری شاعری کو جو زبان ملی ہے وہ بے مثال ہے۔ یعنی ان اشعار کی زبان جو آپ نے ابھی پڑھے ہیں بے نظیر ہے۔ زبان کی یہ ساخت گردش انقلاب کا نتیجہ ہے۔ اس زبان کی تعریف کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ بعض نے اس پر کام کیا ہے۔ مجھ پر یہ زیادہ واضع اور روشن نہیں ہے البتہ یہ زبان، زبانِ جدید ہے۔ ان اشعار کی زبان نہ قدیم خراسانی ہے اور نہ ہی عراقی یا ہندی طرز کی غزل کی زبان۔ البتہ اس زبان میں ان تمام اسلوب کا کچھ حصہ شامل ہے اور کچھ اضافی ہے جو اسی کے لیے مخصوص ہے۔ آج کے شعراء اس زبان کے ذریعے بلندی کا تصور کر سکتے ہیں۔ شاعر کے باطن کا اثر شاعر کی شاعری پر ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ آپ کے اندر سے برآمد ہوتا ہے۔ آپ کا باطن جس قدر صاف اور پاکیزہ ہوگا آپ کی شاعری بھی اسی قدر پاک و پاکیزہ ہوگی، اس پر توجہ ہونی چاہیئے۔ اس کے نمونے ہم نے یہاں دیکھے ہیں۔
ایسے شاعر جنہوں نے ایک خاص کیفیت میں شعر کہے ہیں، ان کی شاعری ایک خاص جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ خاص طور پر وہ نوجوان شعراء جو طبعاً اپنےذوق اور احساسِ لطیف کی وجہ سے ایک خاص منزل سے گزرتے ہیں، انہیں چاہیئے کہ جہاں تک ممکن ہو، تقوی، شریعت اور معرفت کی بنیادوں کو سامنے رکھیں۔ قرآن مجید میں آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ”سورہ شعراء“ کے آخر میں شعراء کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے ”الا الذین آمنوا و عملو الصالحات و ذکروا اللہ کثیرا“ (سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا)۔ ”ذکروا اللہ کثیرا“ سے کیا مراد ہے؟ یعنی سب کو ذکرِ خدا زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیئے لیکن یہاں ایک شاعر کے لیے بالخصوص کہا گیا ہے کہ وہ خدا کا ذکر بکثرت کرے۔ گویا شاعر کو اس ذکر کی زیادہ احتیاج ہے۔ میری ایک سفارش یہ ہے کہ ”گنجینہء ادب فارسی“ سے استفادہ کریں۔ آپ کے شعری اسلوب اور سعدی کے اسلوب میں فرق ہے۔
سعدی فنی تجربات کا ایک عظیم مجموعہ ہے۔ حافظ اور کچھ دوسرے شعراء کے بعد کسی حد تک ان کی نظیر نہیں ملتی۔ ذخائرِ فنی کے اعتبار سے سعدی بہت نمایاں ہیں۔ان کی شاعری کے ہر نکتے سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں۔ آپ خوش ذوق ہیں، جوان ہیں، آپ جو دیکھتے ہیں وہ ہم جیسے نہیں دیکھ سکتے۔ میری خواہش ہے کہ ان فنون کی طرف رجوع کیا جائے۔ ایک نکتہء دیگر، ”شعرِ عاشقانہ“ اور ”غزلِ عاشقانہ“ کے بارے میں ہے۔ ہم نے اس محفل میں اس موضوع پر اشعار سنے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ غزلِ عاشقانہ صریحاً ایک جرم ہے یا ایک منفی شے ہے۔ بالکل نہیں! آخر ایک شاعر میں بھی محبت کے جذبات اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ایسی شاعری کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔ عاشقانہ شعر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح کی رومانوی شاعری کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں جو مقدس اور عالی صفات کی حامل ہو۔
اہم بات یہ ہے کہ فارسی شعری روایت میں عاشقانہ شاعری ہمیشہ عفیف و نجیب رہی ہے۔ اپنی عاشقانہ شاعری سے اس عفت و نجابت کو خارج نہ ہونے دیں۔ یہی ہمارا حرف و کلام ہے۔ عاشقانہ اشعار میں برہنگی، بے پردگی اور بے حیائی درست نہیں ہے۔ زمانہء طاغوت میں بعض شعراء اس طرز کی شاعری کرتے تھے۔ تاہم ان ناپسندیدہ پہلووں کے بغیر بھی عاشقانہ شعر کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ایک ضروری نکتہ ہے۔ ایک اور نکتہ مضمون و مضمون سازی کا مسئلہ ہے۔ البتہ ابھی پڑھے گئے اشعار کے موضوعات خوب تھے۔ ان میں مضمون سازی اور مضمون یابی موجود تھی۔ ایک مطلب کو متعدد زبانوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔آپ اپنے انداز میں بھی وہ بات کہ سکتے ہیں جسے ایک سو دوسرے شعراء کہ چکے ہیں۔
”یک عمر میتوان سخن از ذلف یار گفت“
(ذلف یار کے بارے میں ایک عمر تک بات کی جا سکتی ہے)
ایک ترکیبِ جدید اور ایک قالبِ جدید کے ساتھ اپنا اظہار کریں۔ ہندی (اردو) شاعری کا جو موضوع ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی اور زبان کی شاعری کا موضوع نہیں ہے۔ تاہم اس کی ہیت جدا ہے۔ یہ شعر دیکھیے:
شادم کہ از رقیبان، دامن کشان گذشتی
گو مشت خاک ما ھم برباد رفتہ باشد
(خوش ہوں کہ تم رقیبوں سے دامن بچا کے گزر گئے اگرچہ میری مشت بھر خاک ہوا میں اڑ گئی)
شاید آدم اس مضمون کے دس شعر تخلیق کر لے لیکن ترکیبِ ”دامن کشان گذشتی“ مضمون سازی ہے۔ صائب کی شاعری جو فوق العادہ ہے اس میں یہ مضمون زیادہ ہے۔ اول سے آخر تک صائب کی شاعری اسی طرح کی ہے۔ صائب کے تابع دوسرے شعراء جیسے حزین اور ان جیسے اور بھی یہی اسلوب رکھتے ہیں۔ بیدل کا اس حوالے سے منفرد مقام ہے۔ ان کی شاعری مشکل ہے۔ البتہ لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے کم نظیر ہے۔ ہمارا اس پر اصرار نہیں ہے کہ حتماً ایسی ہی شاعری کی جائے البتہ مضمون لازم ہے۔ مناسب زبان اور مناسب الفاظ ضروری ہیں۔ عوامی اور نچلی سطح پر رائج زبان سے پرہیز کریں۔ ان امور پر اگر توجہ دی جائے تو شعر میں اعتلا (بلندی) پیدا ہوگا اور شاعری برجستہ اور نمایاں ہوگی۔ میں نے ”مضمون ہائے درس آموز با زبان رسا و شیریں و ہمراہ احساسِ لطیف و رقیقِ شاعرانہ“ کے عنوان سے لکھا بھی ہے اور اگر یہ ہو تو شعر واقعی شعرِ برجستہ ہو جائے گا۔
ایک اور نکتہ ہمارے زمانے کے تصورات کے مفاہیم کا ہے۔ میری نظر میں اس طرح کے ”مفاہیمِ اجتماعیِ برجستہ“ اس سے پہلے کم ہی دیکھے گئے ہیں۔ اس محفل میں شہید سلیمانی، شہید رئیسی، شہید سنوار اور شہید نصراللہ پر کہا گیا ہے اور مجھے یقین ہے بہت سے معزز شرکاء بھی کچھ کہنے کو تیار تھے یا ان کے پاس ان ہستیوں کے حوالے سے اشعار تھے۔ میں نے جناب ملکیان اور کچھ دوسرے احباب سے اس حوالے سے بہت اچھا کلام سنا ہے۔ موضوعات اہم تھے ۔ واقعاً یہ وہ حیات بخش مفاہیم ہیں جنہیں لوگوں کے اذہان میں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے، یہ اس زمانے کا کام ہے، میرے خیال میں یہ ضروری ہے۔ اسی طرح اشعار میں توحید، معرفت اور حکمت کے مضامین بھی ہونے چاہئیں۔ اشعار میں جن تعبیرات اور مفاہیم کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بعض واقعی حکمت آموز ہیں اور ان کی سطح بلند ہے اور یہ بہت قیمتی ہیں۔ ان کی مزید تلاش جاری رہنی چاہیئے۔ یقیناً اس طرح کی تعبیرات کے سامع کم ہوں گے کیونکہ ہر کوئی ان مفاہیم کو سمجھنے پر قادر نہیں ہے۔
یہ شعر ملاحظہ فرمائیے :
گفتم زکجایی تو، تسخر زد و گفتا من
نیمی ام ز ترکستان، نیمی ام ز فرغانہ
(میں نے پوچھا تم کہاں سے ہو؟ اس نے ہنستے ہوئے کہا ”میں آدھا ترکستان سے ہوں، آدھا فرغانہ سے)
اسے بہت سے لوگ نہیں سمجھتے۔ یا یہ شعر:
ای لولی بربط زن تو مست تری یا من؟
ای پیش چو تو مستی، افسون من افسانہ
(اے بربط (ایک ساز) بجانے والے ! تو زیادہ مست ہے یا میں، تیری مستی کے سامنے میرا سحر محض ایک افسانہ ہے)
اکثر ہم نہیں سمجھتے کہ یہ مضمون کیا ہے لیکن اس طرح کے موضوعات کو سمجھنے والے بھی موجود ہیں۔ اس طرح کی شاعری کے مخاطبین پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ٹی وی اور ریڈیو پر کسی شاعر کو اس طرح پیش نہ کریں جس سے وہ اور اس کی شاعری بازاری لگے اس سے اس کی اعتباریت ختم ہو جائے۔ میرے ایک دوست جنہوں نے آج کے مواد اور مطالب کے لیے مجھے مشورہ دیا تھا انہوں نے مجھے ایک خوب نکتہ یاد دلایا ہے۔ وہ یہ کہ ماضی میں اکثر ہماری شاعری کی کتابوں کو ”توحیدیہ“ اور ”تہمیدیہ“ کلمات سے شروع کرنے کا رواج تھا۔
”اول دفتر بہ نام ایزد دانا“
(کتاب کا پہلا حصہ خدائے دانا کے نام سے)
البتہ رومی اپنا آغاز اس طرح سے نہیں کرتے۔ وہ خدا کا وصلِ ازلی اور اس سے ارتباطِ معنوی کا ذکر کرتے ہیں جس کا تعلق خدا سے بھی ہے، روحانیت سے بھی ہے اور معرفت سے بھی۔ میری نظر میں اگر آپ اس (توحیدی اور تہمیدی کلمات سے آغاز) کا خیال رکھیں تو بہتر ہے۔ یعنی اگر آپ اپنی شاعری کی جو کتاب منظر عام پر لائیں اس کا آغاز ایسے ہی عارفانہ اشعار سے کریں جو توحیدی ہوں اور تہمیدی ہوں۔ خدا آپ کا بھلا کرے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ان کی شاعری شاعری کی سکتے ہیں شعراء کے حوالے سے شعراء کی شاعری کے رکھتا ہے یہ ہے کہ سکتا ہے نہیں کر میں بھی نہیں ہے شاعر کو ہے لیکن ہوتا ہے طرح کی ہے اور بھی ہے کے لیے اور اس خدا کا اور ان
پڑھیں:
حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کی طرف سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت
مقررین کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی روحانی و فکری طاقت بخشی اور انہیں غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کا حوصلہ دیا۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے زیراہتمام اسلام آباد میں شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی برسی کے موقع پر ایک دعائیہ مجلس کا اہتمام کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حریت رہنما سید یوسف نسیم کی زیر قیادت دعائیہ مجلس کے مقررین نے علامہ اقبال کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا بلکہ ان کے دلوں میں حریت، خودی اور بیداری کی وہ شمع روشن کی جو آج بھی ان کی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی روحانی و فکری طاقت بخشی اور انہیں غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کا حوصلہ دیا۔ مقررین نے کہا کہ کشمیری عوام علامہ اقبال کے افکار سے گہری نسبت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری نے ہمیشہ کشمیر کے نہتے اور مظلوم عوام کو صبر و استقامت اور جدوجہد کا پیغام دیا ہے۔ حریت رہنمائوں نے اس موقع پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی، قانونی اور بنیادی حق خودارادیت دلوانے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائیں تاکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔ دعائیہ مجلس کے آخر میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے درجات کی بلندی، شہدائے کشمیر، کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے استحکام کے لیے دعا کی گئی اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی کو اقبال کے خوابوں کی تعبیر بناتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔دعائیہ مجلس میں حریت رہنما محمود احمد ساغر، ایڈوکیٹ پرویز احمد، مشتاق احمد بٹ، سید فیض نقشبندی، میڈم شمیم شال، شیخ عبدالمتین، دائود خان، جاوید بٹ، میاں مظفر، سید گلشن، نذیر احمد کرنائی، عدیل مشتاق، عبدالمجید لون، محمد اشرف ڈار اور دیگر نے شرکت کی۔