UrduPoint:
2025-04-22@06:21:32 GMT

ترکی: ایردوآن کے اہم سیاسی حریف امامولو حراست میں

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

ترکی: ایردوآن کے اہم سیاسی حریف امامولو حراست میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مارچ 2025ء) میڈیا رپورٹوں کے مطابق، ترک حکام نے صدر رجب طیب ایردوآن کے اہم سیاسی حریف استنبول کے میئر اکرم امامولو کو بدعنوانی اور دہشت گردی سے تعلق کی تحقیقات کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو نے کہا کہ استغاثہ نے تاجروں اور صحافیوں سمیت تقریباً 100 دیگر لوگوں کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیے ہیں۔

دو دہائیاں بعد ایردوآن کا اقتدار چھوڑنے کا عندیہ

امامولو کے معاون کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی اور ڈی پی اے نیوز ایجنسیوں نے بتایا کہ انہیں بدھ کی صبح حراست میں لیا گیا اور پولیس ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا۔

مقامی نشریاتی اداروں نے اطلاع دی ہے کہ پولیس نے تفتیش کے ایک حصے کے طور پر صبح کے وقت استنبول میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔

(جاری ہے)

گرفتاری کے بعد مظاہروں کو روکنے کے لیے حکام نے استنبول میں چار روز کے لیے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے۔ نیٹ بلاکس انٹرنیٹ آبزرویٹری نے بدھ کے اوائل میں کہا کہ ترکی نے متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی کو بھی محدود کر دیا ہے۔

امامولو کا ڈپلومہ ضبط

امامولو کی حراست استنبول یونیورسٹی کے اس اعلان کے ایک دن کے بعد ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وہ بے ضابطگیوں کی بنیاد پر ان کا یونیورسٹی ڈپلومہ منسوخ کر رہی ہے۔

یہ پیش رفت ملک کے اگلے انتخابات میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے ان کے عزائم کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔

ترکی کی آیئن کے مطابق صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے امیدوار کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری ہونی چاہیے۔

یونیورسٹی نے کہا کہ وہ امامولو سمیت 28 افراد کی گریجویشن کی ڈگریوں کو "واضح غلطی" کی وجہ سے "باطل" قرار دے رہی ہے۔

ترک صدر کی جارحانہ سفارت کاری، نیٹو اتحادی مخمصے کا شکار

امامولو کو ایردوان کے اہم دعویدار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ سینٹر لیفٹ ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے ایک مقبول سیاست دان ہیں۔ امامولو کو اس ہفتے کے آخر میں صدارتی امیدوار کے لیے ان کی پارٹی کے انتخاب کے طور پر نامزد کیا جانا تھا۔

امامولو 2019 اور 2023 میں دو مرتبہ استنبول کے میئر منتخب ہو چکے ہیں، انہوں نے اردوان کی حکمران قدامت پسند جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔

خیال رہے کہ ایردوآن نے بھی سن نوے کی دہائی میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز استنبول میں میئر کے عہدے سے کیا تھا۔

ایردوآن 2003 میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے ترکی کی سیاست پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں اور اگر وہ آئین کے تحت دوبارہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں 2028 میں مقررہ وقت سے پہلے انتخابات کرانا ہوں گے۔

امامولو کا بیان

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں، امامولو نے کہا کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔

انہوں نے لکھا، "عوام کی مرضی کو ڈرا دھمکا کر یا غیر قانونی کاموں کے ذریعے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔" "میں پرعزم ہوں.

.. میں بنیادی حقوق اور آزادیوں کے لیے اپنی لڑائی میں ثابت قدم ہوں۔"

ہیومن رائٹس واچ نے امامولو کی حراست کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

ایردوآن کی حکومت نے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ آزاد ہے۔

تدوین: صلاح الدین زین

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان کا بحران اور نواز شریف

بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔

 بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

 موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔

اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔

اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔

اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • معروف پاکستانی ٹک ٹاکر دبئی ایئرپورٹ پر زیر حراست
  • وزیر مملکت کی گاڑی پر حملہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے ضلعی صدر زیر حراست
  • وزیر مملکت کھیئل داس کی گاڑی پر حملہ؛ سندھ ترقی پسند پارٹی کے ضلعی صدر زیر حراست
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے سے بنے کپڑے پہن کر اڈیالہ جیل پہنچنے والے کارکن کو حراست میں لے لیا گیا 
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے والا لباس کیوں پہنا؟ نوجوان گرفتار
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے سے بنے کپڑے پہن کر اڈیالہ جیل پہنچنے والے کارکن کو حراست میں لے لیا گیا
  • پی ٹی آئی کے جھنڈے سے بنے کپڑے پہن کر اڈیالہ جیل پہنچنے والے کارکن کو حراست میں لے لیا گیا
  • پی ٹی آئی رہنما عالیہ حمزہ سمیت 8کارکنوں کو زیر حراست میں لے لیا گیا
  • پاکستان، ترکی، یونان، میانمار، افغانستان میں شدید ترین زلزلہ آنے کا خدشہ،ماہرین ارضیات کی نئی وارننگ جاری