وفاقی سرکاری اداروں کے طویل مدتی منافع کا انحصار انتظامی اصلاحات پر ہے .ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 مارچ ۔2025 )ماہرین نے پاکستان کے وفاقی سرکاری اداروں کی بہتر مالی کارکردگی پر امید کا اظہار کیا ہے جیسا کہ تازہ ترین اعداد و شمار سال بہ سال آمدنی میں 5.2 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وفاقی سرکاری اداروں کی مجموعی آمدنی جون 2024 کو ختم ہونے والے 12 ماہ کے لیے 13,524 بلین روپے تک پہنچ گئی جو مجموعی آپریشنل کارکردگی اور معاشی لچک میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے تجزیہ کار اس نمو کو بحالی کی ایک مثبت علامت کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن طویل مدتی منافع کو برقرار رکھنے کے لیے گہری ساختی اصلاحات کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتے ہیں .
(جاری ہے)
ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق وفاقی سرکاری اداروںکا کل مجموعی منافع بڑھ کر 820 بلین روپے ہو گیاجو پچھلے سال کے مقابلے میں 14.61 فیصد زیادہ ہے دریں اثنا، خسارے میں چلنے والے اداروں نے مجموعی نقصانات میں کمی کی اطلاع دی جو سال بہ سال 14.03 فیصد کم ہو کر 851 ارب روپے رہ گئی ان اعداد و شمار میں 782 ارب روپے کی سبسڈیز اور 367 ارب روپے کی گرانٹس شامل ہیں جس نے محصولات کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا پبلک سیکٹر ویلفیئر فنڈز اداروں کی فیکٹرنگ کرتے وقت منافع کمانے والے اداروں کے ساتھ آفسیٹ کرنے کے بعد خالص مجموعی نقصان 521.5 بلین روپے رہا. مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ جہاں آمدنی میں اضافہ اور نقصانات میں کمی حوصلہ افزا ہے، وہیں پائیدار بہتری کے لیے جامع گورننس اصلاحات کی ضرورت ہوگی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ماہر معاشیات اور پالیسی تجزیہ کار ڈاکٹر عرفان قریشی کا کہنا ہے کہ حالیہ آمدنی میں اضافہ بہتر مالیاتی نظم و ضبط اور توانائی، بینکنگ اور انفراسٹرکچر سمیت اہم شعبوں میں بہتر آپریشنل استعداد کی عکاسی کرتا ہے انہوں نے خبردار کیا کہ سبسڈیز اور گرانٹس کے ذریعے حکومتی مداخلت خسارے میں جانے والے وفاقی سرکاری اداروںکو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے انہوں نے کہا جبکہ اعداد و شمار پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں ان اداروں کی طویل مدتی پائیداری کا انحصار حکومتی بیل آﺅٹ پر انحصار کو کم کرنے اور ساختی اصلاحات کے نفاذ پر ہے ماہرین وفاقی سرکاری اداروںمیں بہتر احتساب اور ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس نے بہتر مالیاتی رپورٹنگ اور ریونیو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے. اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹرجمیل نے آپریشنز کو ہموار کرنے اور ناکارہیوں کو روکنے میں ٹیکنالوجی کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی سرکاری اداروںمیں ڈیجیٹل تبدیلی نے وسائل کی بہتر تقسیم، رساﺅ میں کمی اور مالی شفافیت کو بہتر بنایا ہے اگر یہ رفتار جاری رہی تو ہم آنے والے سالوں میں مضبوط مالی کارکردگی کی توقع کر سکتے ہیں مثبت اشاریوں کے باوجودبعض وفاقی سرکاری اداروںنااہلیوں، مالی بدانتظامی، اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کے ساتھ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں . ڈاکٹرجمیل نے زور دیا کہ سلیکٹیو پرائیویٹائزیشن اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ انتہائی ضروری کارکردگی اور مسابقت لا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایس او ای جو کہ عوامی وسائل کو ضائع کر رہے ہیں یا تو ان کی تنظیم نو کی جانی چاہیے یا نجی شعبے کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری سے سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے. ماہرین کا خیال ہے کہ پالیسی میں تسلسل، مضبوط کارپوریٹ گورننس، اور مالیاتی شفافیت وفاقی سرکاری اداروںکی مثبت رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے تزویراتی اصلاحات کے ذریعے، حکومت کارکردگی کو مزید بڑھا سکتی ہے، مالیاتی بوجھ کو کم کر سکتی ہے اور قومی اقتصادی ترقی میں ریاستی اداروں کے تعاون کو مضبوط بنا سکتی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وفاقی سرکاری اداروں اداروں کی کرتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
بجٹ میں 7؍ ہزار 222 ارب روپے کے خسارے کا خدشہ
خالص آمدنی میں سے سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی
وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے لگایا گیا ، ذرائع
وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب روپے لگادیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال سود کی ادائیگی کے بعد وفاق کے پاس ترقیاتی منصوبوں، دفاع، تنخواہوں، پینشن، سبسڈیز اور گرانٹس سمیت دیگر تمام اخراجات کے لیے صرف 2 ہزار 225 ارب روپے بچنے کا تخمینہ ہے، جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کو اخراجات پورا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑسکتا ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب روپے یا جی ڈی پی کے 5 اعشاریہ 5 فیصد لگایا گیا ہے، تاہم صوبائی سرپلس کیلئے ایک ہزار 360 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔صوبائی سرپلس شامل کرکے مجموعی بجٹ خسارے کا تخمینہ کم ہوکر 5 ہزار 862 ارب روپے یا مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 4 اعشاریہ 4 فیصد رہ جائے گا۔ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی حکومت کی مجموعی آمدنی کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے ہے، جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس آمدنی 15 ہزار 270 ارب اور 3 ہزار 841 ارب روپے کی نان ٹیکس آمدنی کا تخمینہ ہے تاہم این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں سے 8 ہزار 780 ارب روپے کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس خالص آمدنی 10 ہزار 331 ارب روپے رہ جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔آئندہ مالی سال میں خالص آمدنی میں سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کے بعد یعنی وفاق کے پاس باقی تمام اخراجات کے لیے محض 2 ہزار 225 ارب روپے ہی بچ سکیں گے۔