Daily Ausaf:
2025-04-22@18:50:14 GMT

مقروض یا امیر ترین ملک

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

گزشتہ دنوں ایک جاننے والے دفتر تشریف لائے۔ موصوف اوسلو یونیورسٹی ناروے میں معاشیات کے شعبے سے وابستہ ہیں، سیاحت کا جنون ہے اور اسی سلسلے میں بہت سے ممالک گھوم چکے ہیں۔ اب گزشتہ چار روز سے کراچی میں مقیم ہیں۔ بہرحال ہمیں سے ملاقات کے لیے فون کیا تو ہم نے انہیں دفتر بلا لیا۔ جب ان کی تشریف آوری ہوئی تو ہانپتے کانپتے انتہائی غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی، ٹھنڈا پانی پیش کیا، کرسی پر بیٹھ گئے پھر ہمیں گھورتے ہوئے بولے۔ ’’قریشی صاحب، میں آدھے گھنٹے سے صدر کا روڈ بغیر زبرا کراسنگ کے کراس کرنے کے لیے دوسرے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ ’’کیا واقعی آپ کا ملک غریب ہے جو بغیر قرضوں کے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، جس کو قرضوں کی ہمیشہ شدید ضرورت رہتی ہے؟‘‘ ہم ابھی کوئی مناسب جواب سوچ ہی رہے تھے کہ کہنے لگے۔ ’’قریشی صاحب، میں حیران ہوں کہ آپ کے ملک کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے اور آپ کا ملک دنیا کے تقریباً ساڑھے پچیس کھرب روپے کا مقروض ہے۔ ابھی جب میں آپ کا یہ صدر کا روڈ لیفٹ سے رائٹ کراس کرنا چاہ رہا تھا تو مجھے شدید انتظار کرنا پڑا پھر بھی مشکل سے سڑک پار کرسکا کیونکہ ہمیں تو زبر کراسنگ سے روڈ کراس کرنے کی عادت ہے اور وہ آپ کے مالک میں ناپید ہے سوری قریشی صاحب کہ بار کچھ اور ہورہی تھی اور چلی گئی دوسری طرف تو یہاں مختلف میک اور ماڈل کی کاریں، موٹریں اور انتہا سے زیادہ بائیک قطار در قطار اس طرح گزر رہی تھیں کہ درمیان سے گزرنے کی مجھ میں تو ہمت ہی نہیں ہوئی اور ساتھ ہی سڑک کے کنارے کھڑا یہ بھی سوچتا رہا کہ یہاں پبلک ٹرانسپوٹ نہ ہونے کے برابر ہے ہر شخص کے پاس اپنی سواری ہے اور اس کے ساتھ ہی میں حیرت سے ٹریفک میں شامل ان گزرتی گاڑیوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ یا اللہ یہ ملک جو تقریباً پندرہ سو کھرب کا مقروض ہے، اس کے ہر ہر شہر یہاں تک کہ گائوں دیہاتوں تک میں مختلف قسم اور نئے ماڈل کی گاڑیوں کی اس قدر بھر مار ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک ہوگا۔ ایسے ہی آپ کے ملک کے مختلف شہروں میں یہ بلند و بالا عمارتوں کی قطاریں جو خود کئی کھرب مالیت کی ہوں گی۔
سر بفلک کھڑی اپنی امارت اور شان و شوکت کا خود مظہر ہیں۔ میں آپ سے ملنے سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کرتا ہوا آرہا ہوں۔ پاکستان پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ اوسلو یونیورسٹی میں میرا مضمون معاشیات اور معاشرت ہے، اس لیے میں اپنے اس مضمون پر مشاہدہ کرتا ہوں اور آپ کے ملک پاکستان میں آکر محسوس کرتا ہوں کہ کسی تیل پیدا کرنے والے ملک میں آگیا ہوں جہاں لوگوں کو صرف پیسہ خرچ کرنے اور لٹانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ اس بار تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت ترقی یافتہ اور امیر ترین ملک میں آگیا ہوں۔ جناب کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آپ اس طرح نہ تو سڑکوں پر جگہ جگہ دور تک پھیلے شو روم دیکھیں گے۔ نہ کپڑوں کی اتنی بڑی بڑی مارکیٹیں دیکھیں گے۔ خام کپڑا تمام ممالک میں بنتا ہے، وہ یوں اسے ضائع نہیں کرتے بلکہ دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کماتے ہیں اور اپنے شہریوں کے لیے سلے سلائے کپڑے مہیا کرتے ہیں۔ یہاں آپ کے شہر کراچی میں مختلف علاقوں مثلاً ابھی میں کھارادر اور بولٹن مارکیٹ سے آرہا ہوں، وہاں مختلف مارکیٹیں جس طرح سامان سے بھری ہوئی ہیں، وہ کسی غریب ملک کا تاثر تو نہیں دیتیں۔ صدر کے بوہری بازار اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ساتھ ہی طارق روڈ اس کے اطراف اور لیاقت آباد، ناظم آباد، حیدری، شاہ فیصل کالونی، ملیر اور میں تو سب سے زیادہ حیرت کا شکار تو کلفٹن اور زمزمہ کے علاقوں میں جاکر تو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ دبئی یا یورپ کے کسی بڑے شہر میں آگیا ہوں اور غرض آپ کے شہر کے ہر ہر علاقے میں چاہے وہ کسی حیثیت کے لوگوں کا رہائشی علاقہ ہو، کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کسی غریب ملک کا کوئی علاقہ ہے اور اس کے ساتھ ہی میں لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے کئی بڑے اور چھوٹے شہروں سے ہوکر آرہا ہوں وہاں بھی کچھ اس ہی طرح کا تاثر ملتا ہے خاص کر کراچی کا زمزمہ اور لاہور و اسلام آباد تو لگتے ہی نہیں کہ پاکستان کا حصہ ہوں۔ ایسے ہی آپ کو پورے امریکا یا یورپ میں کہیں ڈرائی کلینرز یعنی کپڑے دھونے والوں کی اس قدر دکانیں نہیں ملیں گی۔
یہاں تو ہر گلی کوچے میں کئی کئی دکانیں کپڑے دھونے والوں کی موجود ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لٹانے کے لیے کس قدر دولت ہے۔ بڑے گھرانوں کی بات تو الگ رہی، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں گھروں میں کام کرنے کے لیے کئی کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے اخبارات اور تمام سیاسی لیڈر ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کا بڑا شور شرابہ کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن میں نے سروے کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کسی بھی دکان پر کوئی شے اس لیے فروخت ہونے سے نہیں رہ جاتی کہ اس کی قیمت زیادہ ہے، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم یا اہم چیز کیوں نہ ہو، اس کے خریدار موجود نظر آرہے ہوتے ہیں۔ معاشیات کے استاد کی حیثیت سے میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے لیے وہی چیز مہنگی ہوتی ہے جو ہماری قوت خرید میں نہ آسکے جسے ہم خرید نہ سکیں۔ آپ کے پاکستان میں لوگ جس طرح رہتے ہیں، خرچ کرتے ہیں، اس سے قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی غریب ملک ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ساتھ ہی دنیا کے ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

فلسطین سے اظہارِ یکجہتی، 24 اپریل کو مینارِ پاکستان پر جلسہ ہوگا، مولانا فضل الرحمان

  لاہور: جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے ہمراہ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی پر 24 اپریل کو مینارِ پاکستان پرجلسے کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا کہ اتحاد کے نام پر ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دیا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی صورتحال پوری امت کیلئے باعث کرب ہے۔
 مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذہبی جماعتیں مینار پاکستان جلسے میں شریک ہوں گی، فلسطین کی صورتحال پوری امت کیلئے باعث تشویش ہے، فلسطین کیلئے ملک بھر میں بیداری مہم چلائیں گے، حافظ نعیم نے انتہائی محبت اور احترام کا مظاہرہ کیا، مجلس اتحادامت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جا رہا ہے۔
 سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ لاہور کا جلسہ بھی مجلس اتحاد امت کے پلیٹ فارم سے ہو رہا ہے، اسرائیل کی حامی لابی ہر جگہ موجود، لیکن ان کی کوئی حیثیت نہیں، فلسطین کے معاملے پر اسلامی دنیا کا واضح مؤقف ہونا چاہیے، امت مسلمہ کو حکمرانوں کے رویہ اورغفلت سے شکایت ہے۔
 مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امت مسلمہ کے حکمران اپنا حقیقی فرض نہیں ادا کر رہے، جہاد مقدس لفظ ، اس کی اپنی حرمت ہے، مسلم دنیا جغرافیائی طور پر منقسم ہے، مالی یاسیاسی طورپرشرکت کرنےوالا بھی ایک ہی جہاد کا حصہ ہے۔
 انھوں نے کہا کہ صوبائی خود مختاری سے متعلق جے یو آئی کا منشور واضح ہے، ہر صوبے کے وسائل اس صوبے کے عوام کی ملکیت ہیں، سندھ کے لوگ حق کی بات کرتے ہیں تو روکا نہیں جا سکتا، مرکز میں تمام صوبوں کےاتفاق رائے سےفیصلے کیے جاتے، اس روش کے تحت کالا باغ ڈیم کو بھی متنازع بنا دیا گیا، جے یو آئی نے مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترکر دیا۔
 امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ آئینی ترمیم پر جماعت اسلامی کا اپنا مؤقف تھا، جماعت اسلامی نے 26 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کیا، اپنے اپنے پلیٹ فورم سے مختلف چیزوں پرجدوجہد کریں گے۔
ادھر ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے منصورہ میں ملاقات کی اور انہیں 27 اپریل کو مینار پاکستان میں منعقد ہونے والے اسرائیل مخالف مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔
 ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات کے لیے مولانا فضل الرحمٰن منصورہ پہنچے۔ حافظ نعیم الرحمٰن اور لیاقت بلوچ سمیت جماعت کے دیگر قائدین نے استقبال کیا۔
 ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں متحد ہوکر آواز اٹھانے کا عزم کیا۔
 جے یو آئی ف کے راشد سومرو اور مولانا امجد خان جبکہ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، مولانا جاوید قصوری وار امیر العظیم بھی ملاقات میں موجود تھے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • حافظ نعیم الرحمٰن سے جے یو آئی س کے وفد کی ملاقات
  • یوتھ پالیسی کے تحت نوجوانوں کواقتدار کے عمل میں  شریک کیا جائے گا،امیرمقام
  • فلسطین سے اظہارِ یکجہتی، 24 اپریل کو مینارِ پاکستان پر جلسہ ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • یو این او کو جانوروں کے حقوق کا خیال ہے، غزہ کے مظلوموں کا کیوں نہیں،سراج الحق
  • مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی کے درمیان ملاقات آج ہوگی
  • افغان وزیر خارجہ نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی
  • امیر جماعت اسلامی نے 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا
  • نائب وزیر اعظم کا افغان وزیر خارجہ کو فون:دورے کی دعوت،امیر خان متقی پاکستان آئیں گے
  • حکومت کو کوئی حق نہیں کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی مارچ کو روکے: لیاقت بلوچ
  • سید حسن نصراللہ کے تشیع جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت اسرائیل کی شکست ہے، امیر عباس