Daily Ausaf:
2025-04-22@07:09:41 GMT

اللہ، کچھ لوگ دل سے کیوں نہیں اترتے

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

بعض لوگوں کی طرف سے اتنا پیار، محبت اور شفقت ملتی ہے کہ جس کو انسان بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا۔پھر کچھ لوگ کسی ایسے مشکل وقت میں کام آتے ہیں کہ وہ دل میں محبت کا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔مولانا کوثر نیازی سابق وزیر اطلاعات و نشریات و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے میرے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات تھے۔میرے وہ انتہائی شفیق، مہربان اور بھائی نما دوست تھے ان کو کسی صورت دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔وہ مردم شناس ، موقع شناس اور انتہائی وفاداردوست تھے جہاں کہیں بھی موقع ملتا اپنے دوستوں کو جگہ بنا کر دیتے۔ایک اخبار کے سابق چیف ایڈیٹر سے مجھے انہوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔1985ء سے لے کر ان کی وفات 2015ء تک 30سال تک ان کے ساتھ میرے سگے بھائیوں جیسے تعلقات رہے وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتبار کرتے تھے۔میرے بہت سارے منافق دوستوں کی منافقت اورمخالفت کے باوجود اُن کا مرتے دم تک اسی طرح مجھ سے محبت کا رشتہ قائم رہاجس طرح مولانا کوثر نیازی تعارف کرا کے گئے تھے۔صوبہ سندھ کی دو بڑی شخصیات جام صادق علی اور مخدوم طالب المولیٰ کے ساتھ ساتھ سید فخر امام اور بی بی سیدہ عابد حسین سے بھی انتہائی قریبی رشتہ قائم کر گئے۔کالم میں زیادہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تفصیلاً لکھنے سے قاصر ہوں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا نام لکھوں ۔ نوابزادہ نصر اللہ ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ میر اٖفضل خان حتیٰ کہ مشہور اور نامور شخصیات سے ملوانا اور پھر ا ن کو یہ بتانا کہ ملک فداالرحمن میرے چھوٹے بھائی ہیں ۔یہ جب بھی آپ کے پاس آئیں تو آپ یہی سمجھنا کہ مولانا کوثر نیازی خود آئے ہیں اور پھر یقین جانیئے انہوں نے عزت بھی وہی دی کہ جیسے کوثر نیازی خود تشریف لائے ہیں۔ ایمبیسیوں میں سفیروں کو ملنے جاتے تو تب بھی مجھے ساتھ لے کر جاتے بلکہ ایک دفعہ اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں یوم ِ اقبال کی تقریب تھی جو میری ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آئینہ‘‘ کے زیر اہتمام ہو رہی تھی۔
تقریب کی صدارت وفاقی وزیر تعلیم سید فخر امام فرما رہے تھے اور مہمان خصوصی جام صادق علی ،وزیراعلیٰ سندھ تھے۔ان کے مرکزیہ مجلس اقبال کے ممبر فرزندِ اقبال جسٹس جاوید اقبال اور مجید نظامی بھی موجودتھے۔سب لوگ اپنی اپنی جگہ بہت اعلیٰ تقریر کر رہے تھے ۔اس تقریب میں نظامت کے فرائض میرے ذمے تھے ۔میں نے تقریب کے صدر اور مہمان خصوصی کے خطاب سے پہلے مولانا کوثر نیازی کو خطاب کی دعوت دی۔مولانا صاحب نے تقریب کے ہر مہمان کے متعلق کچھ نہ کچھ تعریفی الفاظ کہے لیکن جب جام صادق علی ،وزیر اعلیٰ سندھ کی باری آئی تو مولانا صاحب نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ جام صاحب ایسا لگتا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ والے علامہ اقبال کو وہ رتبہ نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں ۔خصوصاً سندھ کا تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے علامہ اقبالؒ سے بغض رکھتے ہوں ۔ کراچی شہر میں بہت بڑی ادبی و ثقافتی تقاریب ہوتی رہی ہیں لیکن علامہ اقبال پر کبھی کوئی تقریب نہیں کرائی گئی۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اقبالؒ قومی شاعر نہیں خصوصاً سندھ کے تو بالکل ہی نہیں بلکہ صرف لاہور کے شاعر ہیں اور ان کا یوم صرف لاہور میں منایا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ہر سال کراچی میں بھی یوم اقبال پر بہت شاندار اور پروقار تقریبات ہونی چاہئیں ۔مولانا کوثر نیازی کے بعد وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کو تقریر کی دعوت دی گئی تو انہوں نے خوبصورت تقریب کا اہتمام کرنے پر ’’آئینہ‘‘ تنظیم کی تعریف کے بعد علامہ اقبال کے متعلق خوبصورت الفاظ میں خراجِ عقیدت کا اظہارکیا اور پھر تنظیم کے سربراہ راقم اور مولانا کوثر نیازی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے اس عہدے پرآنے سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔پھر بھی میں معافی چاہتا ہوں۔ آج میں اس تقریب میں حاضر ہوا ہوں تو میں سندھ گورنمنٹ کی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا عطیہ مرکزیہ مجلس اقبال کوپیش کرتا ہوں ۔ یاد رہے کہ 1991ء میں پچاس لاکھ روپے بہت بڑی رقم تھی اور یہ پچاس لاکھ روپے مرکز یہ مجلس اقبال کے اکاؤنٹ میں ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچ جائیں گے۔جس پر مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ جام صاحب پچاس لاکھ روپے مرکزیہ مجلس اقبال کا سالانہ بجٹ بھی نہیں ہے۔لیکن انہوں نے کہا میں نے اعلان کر دیا ہے تو پچاس لاکھ ہی اقبال کے فنڈ میں دوں گا اور جب تک زندہ ہوںکراچی میں ہرسال یوم اقبال کے موقع پر کراچی میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔
بدقسمتی سے زندگی نے جام صادق علی سے وفا نہ کی اور وہ جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے۔مولانا کوثر نیازی کی وفات کے بعد کچھ سال میں نے اپنے طور پر علامہ اقبال ؒکے یوم پر تقاریب کا اہتمام کیا لیکن چونکہ حکومت کی طرف سے ایک آنے کا بجٹ نہیں ملتا تھا تو پھر اپنی مددآپ کے تحت ان تقریبات کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آج بھی یومِ اقبال کی عزت و احترام کا صرف ایک چھٹی کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ آج یوم اقبال کی وجہ سے چھٹی ہے۔حکومت ِ وقت کو چاہیئے کہ وہ یوم قائداعظم اور یوم اقبال کے لئے خصوصی فنڈ مقرر کرے۔یوم اقبال پر مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام اور تمام بڑے تعلیمی اداروں میں اقبالؒ کے فلسفے اور حالات زندگی پر بچوں سے تقاریرکروائی جائیں تاکہ نئی نسل بھی اقبال کی شاعری ، فلسفے اور ان کی دور اندیش سوچ سے آگاہ ہوتی رہے۔ پورے پاکستان میں چھٹی دینے کی بجائے اس طرف بھی توجہ دی جائے۔بات ہو رہی تھی مولانا کوثر نیازی کے متعلق جو بیک وقت بہت اچھے شاعر، ادیب،خطیب، دانشور، مصنف، صحافی ، مذہبی سکالراور دور اندیش اور زیرک انسان تھے ۔ وہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ آج بھی زندہ ہوتے تو نہ پاکستان میں ایسے حالات ہونے تھے نہ کم ظرف اور کم عقل اپوزیشن ہونی تھی ، نہ ایسے ناتجربہ کار سیاستدانوں کی کوئی وقعت ہوتی اور نہ ہی اپوزیشن نمائندے اسمبلیوں میں اوچھے، شوشے اور کم عقلی کی بھات بھات کی بولیاں بول رہے ہوتے ۔آج کل تو بعض سیاستدانوں کے شوشے اور چٹکلے سن سن کر دل کڑھتا اور جلتا ہے اور پھر انسان سوچتا ہے کہ خدا جانے ہم سے کیا غلطی ہو گئی ہے کہ ہمیں کیسے کیسے سیاستدان ملے ہیں ۔ مولانا کوثر نیازی 19مارچ 1994ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اس لحاظ سے آج ان کی اکتیسویںبرسی ہے۔میں آخر میں مولا نا کوثر نیازی کے لئے خصوصی دعا کے ساتھ اپنے تمام قارئین سے بھی درخواست کروں گا کہ آؤ، آج ہم سب مل کر مولانا کوثر نیازی جیسی ہر دل عزیز شخصیت کے لئے دعا کریں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما کر جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین۔ آخر میں اس نایاب شخصیت کی محبت میں ایک شعر لکھنا چاہتا ہوں :
میں اک بلند حوصلے والا ضدی سا شخص
جب تیری یاد سے لڑتا ہوں تو رو پڑتا ہوں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی یہ مجلس اقبال جام صادق علی علامہ اقبال یوم اقبال اقبال کی انہوں نے اقبال کے اور پھر

پڑھیں:

فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ 

لاہور (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے منصورہ لاہور میں ملاقات کی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان گرینڈ الائنس پر اتفاق نہیں ہو سکا تاہم اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ ہر جماعت اپنی سیاسی جدوجہد اپنے پلیٹ فارم سے جاری رکھے گی، البتہ قومی اور عوامی مسائل پر مشترکہ مؤقف اپنانے کی گنجائش موجود رہے گی۔ ملاقات میں لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، امیر العظیم اور جاوید احمد قصوری شریک تھے جبکہ مولانا راشد محمود سومرو، اسلم غوری، مولانا امجد خان اور دیگر رہنما شامل تھے۔ ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ملکی سیاسی صورتحال، فلسطین کے مسئلے، آئینی امور اور اپوزیشن سیاست پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ان کا منصورہ آنے کا مقصد جماعت اسلامی کے ساتھ روابط کی تجدید اور حالیہ دنوں میں انتقال کر جانے والے پروفیسر خورشید احمد کے لیے تعزیت بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اور 27 اپریل کو مینار پاکستان پر بڑا جلسہ‘ غزہ کانفرنس اور مظاہرہ کیا جائے گا جس میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں اور عوام کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مذہبی جماعتوں کے اشتراک سے غزہ کیلئے "مجلس اتحاد امت" کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیدیا ہے تاکہ فلسطین اور دیگر اہم مسائل پر ایک واضح مؤقف سامنے لایا جا سکے۔ مولانا فضل الرحمن نے او آئی سی کی فلسطین پر قرارداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو ایک مؤثر اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ جہاد ایک مقدس فریضہ ہے، لیکن وہ نماز کی طرح مقررہ وقت کی عبادت نہیں بلکہ تدبیر اور حالات کے تابع ہوتا ہے۔ جو بھی فلسطینیوں کی مدد کے کسی بھی درجے میں شریک ہے، وہ دراصل جہاد ہی کا حصہ ہے۔ انہوں نے ایسے عناصر پر شدید تنقید کی جو جہاد کے تصور کا مذاق اڑاتے ہیں۔صوبائی خودمختاری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہر صوبے کے وسائل پر پہلا حق اسی صوبے کے عوام کا ہے۔ انہوں نے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو وفاقی سطح پر بداعتمادی اور مشاورت کے فقدان کی مثال قرار دیا، اور کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل سمیت کئی اہم معاملات پر تمام اکائیوں کو ساتھ بٹھانے کی ضرورت تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اتحادی نہیں ہوتیں، بلکہ اپنے نظریات کے ساتھ جدوجہد کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ماضی میں سخت سیاسی اختلافات رہے ہیں لیکن جے یو آئی نے کبھی گالی گلوچ کی سیاست نہیں کی، اور اب بھی کوشش ہے کہ بات چیت کے لیے کوئی دروازہ بند نہ ہو۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا دونوں جماعتوں کے درمیان اصولی اتفاق ہوا ہے کہ سیاسی جدوجہد اپنے اپنے دائرہ کار میں جاری رہے گی۔ حافظ نعیم الرحمن نے 26ویں آئینی ترمیم کو غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے پر جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی الگ الگ پالیسی تھی، تاہم  مشاورت کے دروازے کھلے رکھنے چاہیئں۔ فارم 45 کی بنیاد پر فیصلے کئے جائیں‘ دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا تھا۔ پی ٹی آئی سے کچھ برس سے بہت اختلافات رہے۔ علاوہ ازیں دونوں جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عوامی مسائل، امت مسلمہ کے مفادات اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے رابطے اور اشتراک کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، جبکہ سیاسی جدوجہد اپنی اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے کی جائے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کافی عرصہ سے ارادہ تھا کہ جب لاہور آؤں تو منصورہ بھی آؤں تاکہ باہمی رابطے بحال ہوں، آج کی ملاقات میں پروفیسر خورشید کی وفات پر اظہار تعزیت کیا ہے، 27 اپریل کو مینار پاکستان میں غزہ کے حوالے سے کانفرنس اور مظاہرہ ہوگا، اس میں ہم سب شریک ہوں، ملک بھر میں بیداری کی مہم چلائیں گے۔ دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہیں جو لوگ اسرائیل گئے وہ پاکستان یا مسلمانوں کے نمائندے نہیں تھے، امت کو مسلم حکمرانوں کے رویوں سے تشویش ہے۔ جن علماء کرام نے فلسطین کے حوالے سے جہاد فرض ہونے کا اعلان کیا ان کے اعلان کا مذاق اڑایا گیا، ان ہی علماء کرام نے ملک کے اندر مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیا اس پر کیوں عمل نہیں کیا جاتا؟۔ جے یو آئی صوبائی خود مختاری کی حامی ہے، نہروں کے حوالے سے سندھ کے مطالبے کا احترام کرتے ہیں، نہروں کا معاملہ وفاق میں بیٹھ کر باہمی مشاورت سے طے ہونا چاہیے، نئی نہروں کا فیصلہ تمام صوبوں سے اتفاق رائے سے ہونا چاہئے۔ ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو واپس اس سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر بات چیت ہوسکے، ہمارا اختلاف پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی سے بھی ہے لیکن لڑائی نہیں ہے۔ حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کرتے۔ جے یو آئی نے مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کر دیا۔ نئے الیکشن کی نہیں بلکہ گزشتہ انتخابات کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات میں دونوں اطراف کی قیادت میں اتفاق پایا گیا کہ ملک میں آئین کی بالادستی کے قیام کی ضرورت ہے، تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں۔ اسی طرح مہنگائی اور معیشت کی خراب صورت حال پر ان کے اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے دعووں کے باوجود عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، جماعت اسلامی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔ موجودہ حالات میں انسانیت اور امت کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ کی صورت حال ہے، جماعت اسلامی کی فلسطین پر عوامی بیداری مہم جاری رہے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ غزہ کے مسئلہ پر پوری امت میں اضطراب ہے اور اس حوالے سے او آئی سی کو واضح اور جاندار موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ جے یو آئی نے غزہ پر مشترکہ جدوجہد کے لیے ’’مجلس اتحاد امت‘‘ پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وسائل پر سب سے پہلا حق صوبہ کے عوام کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر مختلف جماعتوں کا مختلف موقف ہو سکتا ہے، جسے بڑے اختلاف سے تعبیر نہ کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ 
  • مولانا فضل الرحمان کی مرضی اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، عمر ایوب
  • عمران خان سے منگل کو ملاقات کا دن، فیملی ممبران کی فہرست جیل انتظامیہ کو ارسال
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • فائیوجی اسپیکٹرم کی نیلامی کیوں نہیں ہورہی، پی ٹی اے نے اندر کی بات بتادی
  • یو این او کو جانوروں کے حقوق کا خیال ہے، غزہ کے مظلوموں کا کیوں نہیں،سراج الحق
  • یہودیوں کا انجام
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • وقت پر منگنی کا سوٹ کیوں تیار نہیں کیا، شہری نے دکاندار پر مقدمہ کردیا