دشمن کے پیچھے ہم کسی بھی ملک میں کارروائی کر سکتے ہیں، وزیرِدفاع کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2025ء)وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دشمن کے پیچھے ہم کسی بھی ملک میں کارروائی کر سکتے ہیں۔وزیر خارجہ نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دشمن کے پیچھے ہمیں کسی بھی ملک میں جانا پڑا تو ہم جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے والی قوتوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغان حکومت ٹٓی ٹی پی کے دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے دور میں ٹی ٹی پی کو واپس اس لیے لایا گیا تھا تاکہ ایک نجی ملیشیا قائم کی جا سکے، جس سے ملک کی داخلی سلامتی کو نقصان پہنچایا گیا۔خواجہ آصف نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پہلے سے موجود ہے، اور اب اسے صرف بحال کیا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
سعودی عرب کیساتھ تعلقات کا جدید دور شروع ہو چکا ہے، ایرانی سفیر
میڈیا سے اپنی ایک گفتگو میں علی رضا عنایتی کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر دفاع "خالد بن سلمان" کا دورہ تہران، دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک سنگ میل ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عرب میڈیا الحدث سے گفتگو میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر "علی رضا عنایتی" نے کہا کہ سعودی وزیر دفاع "خالد بن سلمان" کا دورہ تہران، دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک سنگ میل ہے۔ اس دورے کے بعد تہران اور ریاض کے مابین تعلقات کے جدید دور کا آغاز ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ دو سالوں میں سعودی عرب کے ساتھ ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی وزیر دفاع "خالد بن سلمان" نے گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز ایران کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ، قومی سلامتی کے ڈائریکٹر اور صدر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ سعودی وزیر دفاع نے رہبر معظم انقلاب سے بھی ملاقات کی اور انہیں سعودی بادشاہ کا پیغام پہنچایا۔ اس موقع پر رہبر معظم انقلاب نے خالد بن سلمان سے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران و سعودی عرب کے درمیان تعلقات، دونوں ممالک کے لئے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مکمل کر سکتے ہیں۔