اسلام ٹائمز: بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ قریبی شراکت داری کی وجہ سے چین کو دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ چونکہ چین نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس لیے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا چین پاکستان کی فوج کو بی ایل اے سے لڑنے کے لیے براہ راست مدد فراہم کرسکتا ہے۔ تحریر: محمد عامر رانا

بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد توقع ہے کہ ریاست کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا جس میں ممکنہ طور پر مختلف محاذوں پر فوجی کارروائیاں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ تاہم صوبے کے سیاسی مسائل اور بالخصوص بات چیت کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کے طریقوں پر توجہ مرکوز رہے گی خواہ پھر وہ بات چیت کتنی خاموشی سے کیوں نہ ہو۔ اس بحث میں ایک اہم نکتہ بھی شامل ہوگا اور وہ باغیوں کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے بیرونی حمایت کا کردار ہوگا جو دوسرے ممالک کی جانب سے وسائل کی امداد اور سفارتی پشت پناہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں تین عناصر اہم ہیں۔ سب سے پہلے بلوچ انتہا پسندوں نے حال ہی میں ایک میٹنگ کے دوران چین کو اپنے منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اس سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ چین پاکستان کو باغیوں کے خلاف کوششوں میں مدد کرنے کے لیے رقم اور وسائل کی پیشکش کے معاملے میں کس طرح کا ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ پاکستان کو شاید امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں سے زیادہ مادی مدد نہیں مل پائے گی جس کی وجہ صرف سیاسی کشیدگی، یوکرین میں جاری تنازع نہیں بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ مغرب اکثر علیحدگی پسند گروپس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ مذہبی دہشت گردی اور انتہاپسندی کو مختلف انداز میں پیش کرتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان، بھارت کی بیرونی لابنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے سفارتی حمایت حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دے گا۔ بھارت بلوچ علیحدگی پسندی کے پیغام کو پھیلانے اور بیرون ملک بلوچ کمیونٹی باغیوں کو دی جانے والی مالی اور سیاسی مدد کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تیسرا عنصر یہ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ بیرونی فوجی مدد ہمیشہ سے بہت اہم رہی ہے۔ مثال کے طور پر 1970ء کی دہائی میں باغیوں کے خلاف لڑائی کے دوران پاکستان کو شاہ ایران کی اہم فوجی مدد حاصل رہی تھی۔ اب ماہرین کا خیال ہے کہ کیا چین پاکستان کو باغیوں کے خلاف اس کی حالیہ جنگ میں اسی نوعیت کی مدد فراہم کرے گا جو کہ اس وقت ایران نے فراہم کی تھی۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر چھوٹے باغی گروپ باقاعدگی سے چینی شہریوں اور پاکستان میں چین کے تجارتی اور سفارتی مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔ ان گروہوں نے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور بلوچستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ چین کے پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چین پاکستان میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب ماحول اس کے شہریوں کے لیے محفوظ ہو۔ دہشت گردانہ حملے جس کی مثال گزشتہ سال اکتوبر میں کراچی میں چینی شہریوں کو ایئرپورٹ سے نکلتے ہی نشانہ بنانا ہے، اس واقعے سے دونوں ممالک کے درمیان عارضی کشیدگی پیدا ہوئی۔ تاہم بعد میں اعتماد سازی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو کم کیا گیا۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ قریبی شراکت داری کی وجہ سے چین کو دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ چونکہ چین نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس لیے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا چین پاکستان کی فوج کو بی ایل اے سے لڑنے کے لیے براہ راست مدد فراہم کرسکتا ہے؟ ماضی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے چین نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے لیکن عملی تعاون محدود رہا ہے۔ مثال کے طور پر 2007ء میں اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف آپریشن چینی صدر ہوجن تاؤ کی جانب سے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو کال کرنے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ یہ کال جامعہ حفصہ مدرسہ کی طالبات کے ہاتھوں چینی ہیلتھ ورکرز کے اغوا کے بعد کی گئی تھی۔

یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ 2014ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے پاکستان کے فیصلے میں بھی چین ملوث رہا ہوگا۔ کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد چین نے ایک بار پھر پاکستان پر زور دیا کہ وہ بلوچ باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ تاہم چین واضح مالی یا لاجسٹک مدد فراہم کرکے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہونے کے بارے میں احتیاط برت رہا ہے۔ پاکستان نے سی پیک اور چینی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع سیکیورٹی میکانزم ترتیب دیا ہے جس میں ایک خصوصی سیکیورٹی ڈویژن کی تشکیل بھی شامل ہے۔ تاہم چین خطرات سے نمٹنے کے معاملے میں بالکل بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتا اور وہ اپنے اتحادیوں جیسے پاکستان سے توقع کرتا ہے کہ کسی بھی خطرات کے خلاف اسی کی طرح سخت مؤقف اپنائے۔

پاکستان انتشار پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن پر بہت لاگت آئے گی خاص طور پر چونکہ ملک پہلے ہی دیگر مہمات میں مصروف ہے جس میں بلوچستان میں علیحدگی پسند باغیوں اور خیبر پختونخواہ میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عزمِ استحکام آپریشن نمایاں ہے۔ ایسے فوجی آپریشن کے اخراجات اور سیاسی نتائج بہت اہم ہوتے ہیں۔ ریاستی ادارے ایسا سیاسی عمل شروع کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے اقتدار پر ان کا کنٹرول کمزور ہو۔ انہیں خوف ہے کہ اس سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ سیاسی قیادت خطرہ مول لینے کے لیے زیادہ تیار ہے لیکن بہت سے رہنما خاص طور پر اقتدار میں براجمان لوگ بلوچستان کے حالات کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے۔ وہ کارروائی کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری میں نہیں بلکہ معاملہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ہے۔

سیاسی حل کے بغیر فوجی کارروائیاں صرف سیکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم ہوں گی۔ چینی ماہرین اکثر اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ چین موجودہ فریم ورک سے آگے بڑھ کر کس طرح پاکستان کو مدد فراہم کر سکتا ہے جیسے کہ آلات فراہم کرنا، انٹیلی جنس کا تبادلہ اور مشترکہ سیکیورٹی مشقیں وغیرہ جبکہ چین پہلے بھی گہرے تعاون کی تجویز دے چکا ہے جیسا کہ پاکستان میں نجی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی مگر پاکستان کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے پیش رفت سست رہی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا چین نگرانی کے سازوسامان، فوجی آلات کی فراہمی یا بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے لیے فنڈز فراہم کرکے سیکیورٹی تعاون کو گہرا کرنے پر دوبارہ غور کرے گا یا نہیں۔ اگرچہ چین بی ایل اے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) و دیگر اتحادی گروپس کی جانب سے اس کے مفادات کو نشانہ بنانے اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات سے پریشان ہے مگر یہ غیر یقینی ہے کہ چین انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں کس حد تک حصہ لے گا۔

چین کو تشویش ہے کہ خطے میں غیرمحفوظ ماحول، عالمی سطح پر دہشت گردی کے خطرات کو بڑھاتا ہے اور اس کے اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف سے توجہ ہٹاتا ہے جس سے اس کے وسیع تر جغرافیائی اقتصادی مقاصد پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے چین ہمسایہ ممالک میں فوجی مہمات کی بھرپور حمایت کرنے کے بارے میں محتاط رہا ہے مگر استثنیٰ بھی تھیں جیسے میانمار میں وہ فوجی جنتا کی حمایت کرتا ہے اور کچھ عسکریت پسند گروپس کے ساتھ امن مذاکرات میں ثالثی بھی کرتا ہے۔ اگرچہ چین پاکستانی فوجی آپریشن کے اخراجات کا اشتراک کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوسکتا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان گہرے سیکیورٹی تعاون کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔

چین اور پاکستان ایک ایسا تعاون کا فریم ورک بنا سکتے ہیں جس میں چینی نجی سیکیورٹی اہلکاروں کی براہِ راست شرکت شامل نہ ہو۔ یہ فریم ورک انٹیلی جنس کے اشتراک، ٹریننگ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص بلوچستان اور سندھ میں پولیس اور انسداد دہشت گردی یونٹس کو سامان فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے۔ اس میں مشترکہ سیکھنے کے تجربات اور سرحدوں کے انتظام کے لیے زمین، سمندر اور ہوا مشترکہ پروٹوکول بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعاون کو غیرروایتی سیکیورٹی خطرات اور سنگین منظم جرائم سے نمٹنے کے لیے وسعت دی جا سکتی ہے۔ بالآخر پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج بلوچستان میں استحکام لانا ہے۔ اس طرح کے مشکل وقت میں ممالک قدرتی طور پر اکثر مدد اور حمایت کے لیے اپنے اتحادیوں کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔

اصل تحریر:
https://www.

dawn.com/news/1898213

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انسداد دہشت گردی کی باغیوں کے خلاف بلوچستان میں مدد فراہم کر فوجی آپریشن چین پاکستان اور پاکستان پاکستان میں سے نمٹنے کے پاکستان کے پاکستان کو کوششوں میں پاکستان کی کی جانب سے بی ایل اے کے طور پر میں چینی کرنے کے ہے لیکن میں چین کے ساتھ کرتا ہے کے بعد کے لیے کہ چین ہیں کہ رہا ہے چین کو سے چین کی وجہ چین نے

پڑھیں:

پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے‘ آئی ایم ایف کا انتباہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251211-01-26
اسلام آباد(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے‘ آئی ایم ایف کا انتباہ۔ بیرونی طلب کمزور اور تجارت میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک۔ تفصیلات کے مطابقعالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کردیا۔آ ئی ایم ایف نے گزشتہ 2 سال کی معاشی کارکردگی سمیت رواں مالی سال کی معاشی پروجیکشنزبھی جاری کردیں۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد سے 6.3 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جون2026 میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 8.9 فیصدتک پہنچ سکتی ہے جب کہ مہنگائی کی شرح جون 2025 میں 3.2 فیصد تھی۔آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 3.2 فیصد پہنچنے کا امکان ہے، پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد سے کم ہوکر 7.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، مالی سال 2026 میں معیشت میں ٹیکسوں کاحصہ 16.3 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2025 میں معیشت میں ٹیکسوں کا حصہ 15.9 فیصد تھا، مالی سال 2026 میں مالیاتی خسارہ 4 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے جو مالی سال 2025 میں 5.4 فیصد تھا جب کہ 2026 میں معیشت میں قرضوں کا بوجھ 69.6 فیصد تک ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق مالی سال 2025 میں معیشت پر قرضوں کا بوجھ 70.6 فیصد تھا، 2026 میں غیرملکی قرضے معیشت کا 22.5 فیصد تک ہوسکتے ہیں جب کہ مالی سال 2025 میں غیرملکی قرضے معیشت کا 22.5 فیصد تھے۔آئی ایم ایف کے مطابق 2026 میں سرمایہ کاری معیشت کا 0.5 فیصد ہوسکتی ہے جو2025 میں معیشت کا 0.6 فیصد تھی۔اس کے علاوہ مالی سال 2026 میں زرمبادلہ ذخائر 17.8ارب ڈالر ہوسکتے ہیں جو 2025 میں 14.5ارب ڈالرتھے۔علاوہ ازیںایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی جی ڈی پی 2025 کے لیے2.7 فیصد سے بڑھا کر3.0کردی ہے اور بتایا ہے گزشتہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں گروتھ ریٹ 5.7 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔پاکستان کی معیشت سے متعلق ایشیائی ترقیاتی بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں تیزی آئی ہے اور رواں مالی سال میں بھی مضبوط بہتری متوقع ہے۔رپورٹ میں 26-2025 کی گروتھ میں بھی بہتری اور کاروباری ماحول سازگار قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ جون 2025 کے سیلاب کے باوجود معاشی رفتار برقرار رہی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے رپورٹ میں بتایا کہ پرائیوٹ سیکٹر کریڈٹ اور کھپت میں اضافہ گروتھ کا باعث بنا، سرمایہ کاری اور انڈسٹری میں ریکوری سے ترقی کا رجحان جاری ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت میں بیرونی طلب کمزور اور تجارت میں غیر یقینی صورت حال بدستور برقرار ہے۔

نمائندہ جسارت سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل اور اس کےحامیوں کوغزہ کی تعمیر نو کا خرچہ اٹھانا چاہئے؛ اقوام متحدہ
  • پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
  • ٹرمپ کا بڑا اعلان: وینزویلا کے خلاف فوجی کارروائی کا خطرہ بڑھ گیا
  • پاکستان کا سری لنکا سے یکجہتی کا اظہار، سائیکلون متاثرین کےلیے مزید امداد روانہ
  • بذریعہ کے فور کراچی کو روز 260 ملین گیلن پانی فراہم ہو گا: وزیرِ اعلیٰ سندھ
  • ٹرمپ گولڈ کارڈ حاصل کرنے والے کیا فوائد حاصل کرسکیں گے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • سابق فوجی افسر فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا
  • یو اے ای میں غیر قانونی ملازمت یا رہائش فراہم کرنے پر اب بھاری جرمانے اور قید کی سزا
  • پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے‘ آئی ایم ایف کا انتباہ
  • عالمی دباؤ پر اسرائیل نے غزہ امداد کے لیے اردن کی سرحد کھول دی