Express News:
2025-04-22@11:30:12 GMT

سندھ کی ترقی اور غربت

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

جے میتا Gemitaاور نیب زیپیک Nap Xepac انجکشن کینسر کے خطرناک مرض کو روکنے کے لیے مریض کو دی جاتی ہیں۔ یہ ادویات کیموتھراپی کے عمل کے ذریعے مریض کے جسم میں داخل کی جاتی ہیں۔

کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریض کے لیے کیموتھراپی لازمی ہوتی ہے اور جب کیموتھراپی کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو اس میں وقفہ آجائے یا کیموتھراپی کو روک دیا جائے تو سارا عمل بے کار ثابت ہوجاتا ہے۔ بازار میں ان ادویات کی قیمت ایک لاکھ روپے کے قریب ہے، اگرکوئی مریض یا اس کے لواحقین کا رابطہ کسی طرح ان ادویات بنانے والی کمپنی کے کسی فرد سے ہوجائے توکینسر کا ڈاکٹر میزبانی کرے تو یہ ادویات 75 ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہیں اور کیموتھراپی کے کم سے کم 10سیشن ہوتے ہیں۔

 حکومت سندھ نے جب سے کراچی کے قدیم جناح اسپتال کو اپنی تحویل میں لیا ہے جناح اسپتال کا کینسر وارڈ صاحبِ ثروت افراد کے عطیات کی بناء پر اسٹیٹ آف آرٹ وارڈ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس وارڈ میں علاج کے لیے جدید ترین مشینیں موجود ہیں مگر مریضوں کو کیموتھراپی کے لیے بازار سے ادویات خرید کر لانی پڑتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں عموماً نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے افراد آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ مہنگی ادویات خریدنا ایک بہت بڑا کا مسئلہ ہے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ایک سالہ کارکردگی پر ایک پریزنٹیشن دی گئی۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ذریعے انفرا اسٹرکچر اور زراعت کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی پریزنٹیشن میں ای سسٹم کے نفاذ سمیت صحت ، تعلیم، آئی ٹی، واٹر مینیجمنٹ، زراعت،گورننس اصلاحات کے حوالے سے اہم اقدامات پر روشنی ڈالی ہے۔

حکومت سندھ نے زراعت کے شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے واٹر مینیجمنٹ کو بہتر کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ ٹھٹھہ، بدین اور عمرکوٹ میں ٹیل کے زمینداروں کو مسلسل یہ شکایات ہیں کہ ان کے علاقے میں پانی پہنچتا نہیں ہے۔ جن زمینداروں کی زمینیں نہروں کے ابتدائی حصے میں واقع ہیں، ان کی زمینوں کو پانی مل جاتا ہے۔ یہ بھی رپورٹیں ہیں کہ دریائے سندھ کے قریب شہروں میں بھی پانی کی قلت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سندھ میں پانی کی کمی ہے تو دوسری طرف دریائے سندھ اور نہروں سے ہر سال مٹی نکالنے کا کام نہ ہونا بھی پانی کی کمی کی وجہ قرارد یا جاتا ہے۔

سندھ کی حکومت نے زراعت کے لیے پانی استعمال کرنے کے جدید ترین طریقوں کو رائج کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اگر یہ جدید ترین طریقے رائج کیے جائیں تو پانی کی کمی کے باوجود بھی اچھی فصلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ چند ماہ قبل ایک انگریزی معاصر میں ایک ماہر زراعت نے سندھ میں پیدا ہونے والی فصلوں کی پیداوار سندھ کی سرحد سے منسلک بھارت کی ریاست راجھستان کی فصلوں کی پیداوار کی شرح کا موازنہ کیا ہے۔

اس موازنے سے ظاہر ہورہا ہے کہ گندم، چاول اور دوسری فصلوں کی سندھ میں فی ایکڑ پیداوار راجھستان میں سے کم ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت سندھ کا محکمہ زراعت ہاریوں اور زمینداروں کو جدید طریقوں سے مانوس کرانے میں ناکام ہے۔ اس رپورٹ میں شعبہ تعلیم میں کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے مگر سندھ میں اب بھی 3.

63 ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور محض اسکول نہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ ان اسکول نہ جانے والے بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اب بھی تعلیم کے لیے امداد دینے والے عالمی ادارے گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی کا ضرور ذکرکرتے ہیں ۔

USAID کی مدد سے اندرونِ سندھ تعلیم کے کئی منصوبے بنے تھے۔ ایک امریکی سینیٹر نے صدر ٹرمپ کے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں یو ایس ایڈ کے کروڑوں ڈالر خرچ ہونے کے باوجود گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی کا مطلب کرپشن ہے۔ بہرحال سندھ کے تمام تعلیمی بورڈ جو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا انعقاد کرتے ہیں، مسلسل اسکینڈلزکی زد میں رہتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ تک چھ بورڈز کے چیئرمین کا تقرر ایک سال کے قریب عرصہ سے رکا ہوا تھا۔ تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ صرف کراچی بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج مشکوک ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ سال انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج ایک سیاسی تنازع بن گیا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں تو یہ انکشاف کیا گیا کہ فرسٹ ایئر کے مختلف مضامین کی خاصی امتحانی کاپیاں چیک نہیں کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ میں اندرونِ سندھ ہونے والے صنعتی ترقی کا ذکر نہیں ہے۔

سندھ کی حکومت شعوری طور پر اندرونِ سندھ شہروں میں صنعتی ترقی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتی جس کے نتیجے میں بے روزگاری عام ہے اور اندرونِ سندھ شہروں کے نوجوان بڑے شہروں میں منتقل ہو کر ملازمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان نوجوانوں کا سارا زور سرکاری ملازمتوں کے حصول پر ہوتا ہے، اگر اندرونِ سندھ زرعی مصنوعات کے علاوہ دیگر بنیادی پروڈکٹ کے کارخانے لگائے جائیں تو ترقی کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔

وزیر اعلیٰ کی اس پریزنٹیشن میں صحت کے لیے بھی بڑے پیمانہ پر اسپتالوں کو دی جانے والی گرانٹ کا ذکر کیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ میں بین الاقوامی معیار کے 9 ایمرجنسی سینٹر اور 106 ٹیلی میڈیسن مراکز قائم کیے گئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور صوبہ میں بچوں کی اموات کی شرح 5.4 فیصد سے کم ہو کر 2.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت سندھ کا یہ اہم کارنامہ ہے مگر لاڑکانہ ضلع کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاڑکانہ اور اطراف کے اضلاع میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اسی طرح ہیپاٹائیٹس Bاور C نے ایک خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ ایڈز کے مرض پھیلنے کی وجہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر D.H.O کے ادارہ کا کمزور ہونا ہے، اگر ڈی ایچ او اپنے ضلع میں ڈاکٹروں ، نرسوں ، کمپوڈر اور حجام کی دکانوں وغیرہ کی سنجیدگی سے نگرانی کا فریضہ انجام دے تو یہ امراض رک سکتے ہیں۔

 سندھ میں کتے کے کاٹنے کا مرض خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں کتے کے کاٹنے سے صرف کراچی کے تین اسپتالوں میں چھ مریض ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ میں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صرف کراچی کے انڈس اسپتال میں گزشتہ سال کتے کے کاٹنے کے پندرہ ہزار مریض آئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرونِ سندھ اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔

 کراچی شہر کے آدھے سے زیادہ مکینوں کے گھروں میں نلوں سے پانی نہیں آتا۔ صاف پانی اور گندے پانی کی نکاس جیسے بنیادی اقدامات سے بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ میں سندھ میں غربت کی خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے کی سندھ میں شرح 40.3 فیصد ہے۔ جب تک غربت کم نہیں ہوتی، ترقی کا حقیقی مفہوم عملی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس رپورٹ میں حکومت سندھ ہیں اور جاتا ہے پانی کی سندھ کی گیا ہے

پڑھیں:

لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق


مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے لاہو کی بیٹھک میں ساتھ چلنے پر اتفاق کرلیا۔

گورنر ہاؤس لاہور میں ہونے والی ملاقات میں پانی کی تقسیم، زراعت، بلدیاتی انتخابات سمیت کئی معاملات پر تبادلہ خہال کیا۔

ن لیگ کی طرف سے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور پی پی پنجاب کے سربراہ حسن مرتضیٰ نے کوآرڈی نیشن کمیٹی اجلاس میں شرکت کی، اس دوران ملکی صورتحال کے پیش نظر مل جل کر چلنے پر اتفاق کیا۔

اس موقع پر ن لیگ نے پی پی قیادت کے پانی، گندم اور ترقیاتی فنڈز سے متعلق تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

حکومت پیپلز پارٹی کو ناراض کرنے پر تلی ہے، آغا رفیع اللّٰہ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللّٰہ نے کہا ہے کہ دریائے سندھ پر 6 نہریں نکالنے سے سندھ کی موت واقع ہوجائے گی۔

اجلاس میں پنجاب میں دونوں جماعتوں کے درمیان پاور شیئرنگ پر پیشرفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی پی کے حسن مرتضیٰ نے کہا کہ کینالز کے معاملے پر ہماری قیادتیں مل کر بیٹھیں گی، ایک موقف لے کر سامنے آئیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر کسی کو بھی ذمے دار قرار دینا قومی المیہ بن چکا ہے۔

پی پی کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ سوال یہ ہے کہ نئی نہریں نکالی جائیں گی تو ان کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟

سسٹم میں پانی نہیں تو یہ کینالز کیسے بنارہے ہیں؟ وزیر آب پاشی سندھ کا سوال

وزیر آب پاشی سندھ جام خان شورو نے استفسار کیا ہے کہ جب سسٹم میں پانی ہی نہیں تو یہ کینالز کیسے بنارہے ہیں؟

اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں پیش کیے گئے بلدیاتی بل پر تحفظات ہیں، ترقیاتی فنڈز ہمارا حق ہے، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں، گفتگو کے بعد بہتر راستہ نکلے گا۔

اس موقع پر ن لیگ کے ملک محمد احمد خان بھی پی پی رہنما کے ہم آواز تھے، انہوں نے کہا کہ سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی کا ایشو سیاسی نہیں تکنیکی ہے، تکنیکی معاملات پر بات ہونی چاہیے، پانی پر سندھ کے تحفظات دور ہونے چاہئیں، اس میں کچھ غیر فطری نہیں ہے۔

یہ درست نہیں صدر زرداری نے کینالز منصوبے کی منظوری دی، شرجیل میمن

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے کینالز منصوبے کی منظوری دی۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ارسا میں پانی کی تقسیم کا فارمولا طے ہے، جس پر سب کا اتفاق ہے، بتایا گیا ہے کہ 10 ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے معاملات پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے، مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کو اختیار ملنا چاہیے، پیپلز پارٹی بھی چاہتی ہے پنجاب میں اچھی گورننس ہو۔

انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو مختلف جماعتیں ہیں، پی پی ہماری اتحادی جماعت ہے، اس کی رائے مختلف ہوتی ہے تو اظہار جلسوں اور باہمی ملاقاتوں میں ہوتا ہے، اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔

ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور مواقع ملیں۔

اس سے قبل صدر ن لیگ کی ہدایت پر رانا ثناء اللّٰہ نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن سے فون پر رابطہ کیا تھا۔

رانا ثناء اللّٰہ نے شرجیل میمن سے کہا کہ نہروں کے معاملے پر مذاکرات کو تیار ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف نے نہروں پر سندھ کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ پیپلز پارٹی نہروں پر وفاق سے مذاکرات کو تیار ہے، پی پی سندھ کےلیے 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • سندھ کے پانی کے مسلے پر رانا ثناءاللہ کا بڑا اعلان
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • سندھ کا پانی چھینیں گے نہ چوری کریں گے، رانا ثناء
  • سندھ کا پانی پنجاب نہیں لے سکتا: عظمیٰ بخاری
  • آصف زرداری سندھ کا پانی بیچ کر آنسو بہا رہے ہیں، قائد حزب اختلاف
  • لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق
  • آصف زرداری سندھ کا پانی بیچ کر آنسو بہا رہے ہیں، قائد حزب اختلاف عمر ایوب
  • ایم کیو ایم سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی: فاروق ستار 
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ