Express News:
2025-04-22@09:48:56 GMT

بھکاریوں کی یلغار

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

رمضان المبارک اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے اور عید کی گہما گہمی شروع ہو رہی ہے۔ بازاروں میں رش بڑھ رہا ہے۔ لوگ عید کی شاپنگ شروع کر رہے ہیں۔ امیر و غریب سب ہی عید پر نئے کپڑے پہننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہائی غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکتے۔

ان کی عید بھی ان کے ہر دن کی طرح ہی ہوتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد عید بھی محرومیوں کے ساتھ ہی مناتی ہے۔لیکن میں آج ایک ایسے طبقے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ جو ویسے تو پورا سال ہی نظر آتا ہے۔ لیکن رمضان اور عید کی آمد پر شہروں میں اس کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھکاری ہیں۔ نہ جانے رمضان او ر عید میں اتنی بڑی تعداد میں بھکاری کہاں سے آجاتے ہیں۔ کون لوگ ہیں جو پورا سال تو نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ بھیک مانگنے کے لیے نکل آتے ہیں۔ سار اسال کہاں ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں؟۔ لیکن رمضان میں بھکاری بن جاتے ہیں۔

آجکل آپ سڑکوں پر دیکھیں تو بھکاریوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ آپ کہیںگاڑی کھڑی کریں، موٹر سائیکل کھڑی کریں، پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑے ہوں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ بھکاریوں سے بچ سکیں۔ایک نہیں دو نہیں بلکہ بھکاریوں کا لشکر آپ پر حملہ آور ہوجائے گا ۔ یہ آپ سے ایسے پیسے مانگتے ہیں جیسے آپ نے ان کا ادھار دینا ہوں۔

آپ ان کے ڈیفالٹر ہیں۔ اگر آپ پیسے نہ دیں تو نہ صرف منہ بناتے ہیں۔ بلکہ کئی دفعہ برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ پہلے پیسے مانگنے کے لیے دعا دیتے ہیں۔ اگر آپ نہ دیں تو بد دعا دیکر چلے جاتے ہیں۔ بد تمیزی بھی کرتے ہیں۔ اتنے بد تمیز فقیر آپ نے کہیں نہیں دیکھے ہوںگے۔ دیدہ دلیری سے مانگتے ہیں۔ بغیر شرمندگی کے مانگتے ہیں۔ دنیا میں کہیں آپ کو ایسے فقیر نہیں ملیں گے۔ یہ اپنی پہچا ن خود ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں گداگری کو روکنے کے لیے قانون بھی موجود ہے۔ بھیک مانگنا جرم بھی ہے۔ کہنے کو تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بھکاریوں کے خلاف ایکشن بھی کرتے ہیں۔ لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ بلکہ پاکستان میں بھکاری بننا قانوناً جائز ہے۔ بلکہ ا س کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہمیں سڑکوں، چوراہوں، گلی محلوں میں کھلے عام بھکاری نظر آتے ہیں۔ ہر چوک، ہر ٹریفک سگنل پر بھکاریوں کا ایک گروپ موجود ہوتا ہے۔ جنھوں نے پلاننگ کے ساتھ سگنلز کو آپس میں تقسیم کیا ہوتا ہے۔ یہ آپس میں لڑتے نہیں ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کون ان کے درمیان یہ تقسیم طے کرتا ہے۔ اور کون ان کے درمیان رولز آف گیم طے کرتا ہے۔

ایک عام رائے یہ ہے کہ بھکاریوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ آپ ایسے ہی کسی چوک میں کھڑے ہو کر مانگ نہیں سکتے۔ ہر چوک کسی نہ کسی کی ملکیت ہے۔ نیا بھکاری ویلکم نہیں کیا جاتاہے۔ کون ہے جو اس نیٹ ورک کو چلا رہا ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ انتظامیہ کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ نیٹ ورک نہیں چل سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامیہ کی مدد کے بغیر کوئی ا س طرح چوکوںپر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کون ہے جو انتظامیہ میں ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھکاریوں کا یہ نیٹ ورک اب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔

سعودی عرب کو بھی اب ہم سے یہی شکایت ہے۔ عمرہ زائرین کی شکل میں اب بھکاری سعودی عرب جا رہے ہیں۔ سعودی حکومت کو پاکستان سے شکایت ہے کہ ہم بھکاری بھیج رہے ہیں۔ وہاں سب عبادت کرنے جاتے ہیں۔ صرف پاکستان سے بھکاری جاتے ہیں ۔ وہاں سب رب سے مانگ رہے ہوتے ہیں جب کہ پاکستانی بھکاری لوگوں سے مانگ رہے ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔پاکستان پر ویزوں کی پابندی لگ رہی ہے۔ یہ کوئی پاکستان کی نیک نامی نہیں ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات کو بھی پاکستانی بھکاریوں سے شکا یت ہے۔ ہم نے بھکاری دبئی بھی برآمد کرنے شروع کر دیے ہیں۔ دبئی کی سڑکوں پر بھی پاکستانی بھکاری نظر آنے لگے۔جس کی وجہ سے دبئی حکومت بھی کوئی خوش نہیں۔ ملائیشاء میں بھی پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آج عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان پاکستان کے بھکاری بن گئے ہیں۔ بچے سڑکوں پر مانگتے نظر آتے ہیں۔ بچیاں سڑکوں پر مانگتی نظر آتی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسا ئی ہو رہی ہے۔

یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شدید ضرورت اور مجبوری میں ایک دفعہ مانگ لے۔ لیکن مانگنے کو پیشہ بنانا کیسے جائز ہے۔ پیشہ ور بھکاری کیا کسی رعایت کے مستحق ہیں۔ پاکستان میں بھیک مانگنے کو روکنے کے لیے قانون موجود ہے۔ لیکن جیسے اور کئی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ویسے ہی بھکاریوں کے خلاف بنائے گئے قوانین پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر عمل بھی کیا جائے۔ پاکستان میں بھکاریوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔

کھلے عام بھیک مانگنا جرم ہے اور اس جرم کو روکنا ہوگا۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سرا ء بھی بڑی تعدادمیں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر خواتین کے کپڑوں میں میک کیے یہ خواجہ سراء مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی بد تمیز بھکاری ہیں۔ یہ لوگوں کو بہلاکر پھنساتے بھی ہیں۔ اور پھر ان کو لوٹتے بھی ہیں۔اب تو گھروں کی بیل دیکر بھی دیدہ دلیری سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ آپ بیل پر گیٹ کھولتے ہیں کہ شاید کوئی مہمان آیا ہے۔ لیکن آگے آپ کی بھکاری سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ بھکاریوں کی آڑ میں مجرم بھی پھرتے ہیں۔ اور گھروں کی نگرانی کرتے ہیں۔

 پاکستان میں بھکاری کلچر پروان چڑھ چکا ہے ۔ اچھے خاصے لوگ مفت کا خیراتی راشن لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تو دفاتر میں بھی یہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم نے قوم کو کام کرنے کے بجائے مانگنے پر لگا دیا ہے۔ لوگ مانگتے ہیں کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ مانگنے کے بھی سیزن ہیں۔ رمضان اور عیدین اس کے بڑے سیزن ہیں۔ ویسے بھی آج کل بھیک میں کمائی زیادہ ہے۔ حکومت کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ جو نہایت افسوسناک ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستانی بھکاری پاکستان میں نظر ا تے ہیں بھکاریوں کا میں بھکاری مانگتے ہیں پاکستان کی بڑی تعداد جاتے ہیں ہوتے ہیں سڑکوں پر کرتے ہیں میں بھی نیٹ ورک جاتی ہے رہا ہے رہی ہے یہ بھی

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا دورہ کابل

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے ٹھیک نہیں تھے۔

پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ افغانستان نے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے بھی ختم تھے۔

اسی ناراضگی میں پاکستان نے پاک افغان بارڈرز پر نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ پہلے آمد و رفت عام تھی اب ویزہ کے بغیر کوئی نہیں آجا سکتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان نے افغانستان سے تجارت محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں جب تک تعاون نہیں کیا جائے گا تجارت اور معاشی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں۔اسی لیے دونوں ممالک کا تجارتی حجم بھی بہت کم ہوگیا۔

پاکستان نے اپنے ہاں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا۔کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان بھی جو چیزیں افغانستان سے لیتا ہے طالبان حکومت نے اس پر ٹیرف لگا دیا تھا۔ اس میں کوئلہ سر فہرست ہے۔ پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر قدغن لگائی۔سادہ بات بارڈر بھی بند تجارت بھی بند۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ناراض۔

کچھ غیر مصدقہ خبریں ایسی بھی ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ افغانستان کے اندر جا کر بھی کارروائیوں کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان کی تصدیق پاکستان نے تو نہیں کی تھی لیکن افغان حکام کے رد عمل نے اس کی تصدیق کی تھی۔ اس لیے جب کشیدگی میں اضافہ ہوا بات چیت اور تعاون کے تمام دروازے بند ہوئے تو کارروائیاں بھی کی گئیں۔

لیکن گزشتہ دو ماہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ایسے پیغامات موصول ہوئے کہ وہ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے ان پیغامات کی روشنی میں پاکستان کے افغانستان کے لیے مستقل نمائندے دو دفعہ کابل بھی گئے وہاں بات چیت ہوئی۔ ان کے دوروں کے بعد اسحاق ڈار کابل گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا چار سال بعد افغانستان کا دورہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ سب کے ذہن میں یہی سوال ہے۔

جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ معاشی تعلقات محدود کرنے شروع کیے تو شروع میں افغانستان نے اس کا کوئی دباؤ نہیں لیا تھا۔ اب کیا ہوا۔ ایک بات تو سب کو پتہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد افغان طالبان کو جو مدد مل رہی تھی وہ بند کر دی گئی ہے۔ جس سے وہ معاشی طور پر مشکل میں ہیں۔ اب انھیں معاشی تکلیف ہوئی ہے۔ اس لیے جو باتیں ان کے لیے پہلے اہم نہیں تھیںِ اب اہم ہیں۔ وہ اب پاکستان سے تجارت کو اہم سمجھتے ہیں۔ امریکی ڈالر جو بند ہو گئے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے افغانستان میں حقانیوں اور قندھاریوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ طالبان کے قندھار گروپ اور حقانی گروپ کے درمیان لڑائی تھی۔ قندھار گروہ مضبوط ہے لیکن قندھار گروپ کا یہ خیال تھا کہ حقانی ہمیشہ سے پاکستان کے قریب رہے ہیں۔

ان کے تعلقات بھی پاکستان سے زیادہ رہے ہیں اس لیے پاکستان حقانیوں کا ساتھ دے گا، ان کی مدد کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بالکل دخل نہیں دیا ہے۔ حقانیوں اور قندھاریوں کے تنازعہ میں پاکستان فریق نہیں بنا ہے۔ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس وقت قندھار گروپ نے اقتدار پر اپنا کنٹرول زیادہ مضبوط کر لیا ہے۔ ملا ہیبت اللہ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اس وجہ سے بھی قندھار گروپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

پاکستان نے قندھار گروپ بالخصوص ملا ہیبت اللہ کے مثبت پیغامات کا مثبت جواب دیا ہے۔ ہم نے اس موقع کو ضایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے پہلے محمد صادق کو بھیجا گیا اور جب کافی معاملات حل کے قریب پہنچ گئے تو اسحاق ڈار گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہوگا کہ دہشت گردی میں کیا ہوگا، تو اطلاعات یہی ہیں کہ تعاون ہوگا۔ ویسے تو اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کی رائے میں دہشت گردی میں جب بہت تیزی آتی ہے تو پھر کمی بھی آتی ہے۔

اس لیے اگر تو یہ کمی مستقل ہوئی تو پھر ہی کچھ کہا جائے گا۔ بہر حال اطلاعات یہی ہیں کہ وہ دہشت گردی میں تعاون کرنے پر مان گئے ہیں۔ بالخصوص بلوچ دہشت گردوں پر زیادہ تعاون نظر آئے گا۔ ان کی افغانستان میں کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کی نشاندہی پر ان کے خلاف افغانستان میں آپریشن بھی کیے جائیں گے۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ میں بھی بلوچ دہشت گرد افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔ اس لیے طالبان حکومت ان بلوچ دہشت گردوں کی مدد ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی بڑی پیش رفت ہے۔ ٹی ٹی پی سے وہ بات کریں گے اور انھیں بھی کارروائیاں بند کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

اسی بات پر پاکستان نے معاشی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اور آپ نے دیکھا کہ اسحاق ڈار نے معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے اعلانات بھی کیے۔ لیکن پاکستان نے افغان مہاجرین پر کوئی مفاہمت نہیں کی ہے۔ افغان طالبان کی یہ درخواست کہ ان کے رہنے کی مدت بڑھائی جائے، نہیں مانی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ اس پر کوئی لچک نہیں ہو سکتی۔ اب افغان طالبان کو ان مہاجرین کو واپس لینا ہی ہوگا۔ یہ ایک مستقل پالیسی ہے۔ اس کا اچھے برے تعلقات سے کوئی واسطہ نہیں۔

لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ دہشت گرد افغانستان میں اب ان علاقوں میں ہیں جو افغان ایران کے بارڈر کے ساتھ ہیں۔وہاں طالبان کا کنٹرول بھی محدود ہے۔ لیکن افغان طالبان وہاں آپریشن کرنے اور وہاں اپنا کنٹرول بڑھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس میں پاکستان ان کی مدد بھی کرے گا تا کہ ان علاقوں کو بلوچ دہشت گردوں سے پاک کیا جاسکے۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں تعاون پر اتفاق ہو گیا ہے۔امید یہی کی جا سکتی ہے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • ’بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے‘، برسوں پیسہ جوڑ کر فراری خریدنے والے کی خوشی چند منٹوں کی نکلی
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
  • کانپور میں انوکھا واقعہ: دلہن شادی سے قبل فرار، دولہا بارات کے ساتھ خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا
  • پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی