زرعی انقلاب، ملکی خوشحالی کی منزل
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے صوبائی حکومتوں، نجی شعبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مل کر پورے ملک میں فارم میکانائزیشن کو فروغ دینے کی ہدایات دی ہیں۔ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے امور پر جائزہ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، حکومت زرعی شعبے کی ترقی اور زرعی پیداوار بڑھانے کے حوالے تمام سہولیات مہیا کرے گی، زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ملک بھر سے نوجوان زرعی محققین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
موجودہ معاشی صورتِ حال میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زرعی درآمدات، پٹرولیم درآمدات کے لگ بھگ ہونے کو ہیں تو ان حالات میں زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کا جائزہ لینا بنیادی ضرورت بن جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کا زرعی شعبہ بانجھ اور زرعی رقبہ قابلِ کاشت نہیں رہا یا پھر جدید وسائل کے نامناسب استعمال کی وجہ سے ہم زرعی پسماندگی کا شکار ہیں؟ ہم بے پناہ زرعی وسائل کو بروئے کار لا کر نہ صرف زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ زرعی اجناس برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔
اس وقت معاشی اور زرعی ترقی کے لیے سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے تعاون سے متعدد زرعی منصوبے زیرغور ہیں جو ملک کی برآمدات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
ان شعبوں میں زراعت، پھل، سبزیاں، مال مویشی، پولٹری، ماہی گیری اور شمسی توانائی کا استعمال شامل ہیں۔ زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ ٹیوب ویلز سسٹم بھی زیرزمین میٹھے پانی کے ضایع کا سبب بن رہاہے۔ عمدہ بیج میسر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں زیتون کی کاشت بھی ہورہی ہے ، کاشتکاروں کی شمولیت سے ہم پیوند کاری میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ جنگلی زیتون کے علاوہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں زیتون کے باغات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً پوٹھو ہارکا علاقہ زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں قرار دیا جا چکا ہے۔ چولستان کا علاقہ انگورکی کاشت کے لیے موزوں قرار دیا جا چکا ہے، جہاں انگورکی کاشت کی حوصلہ افزائی کر کے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ جنوبی پنجاب کے مقامی لوگوں کی سالانہ آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔
زرعی ادویات اورکیمیائی مادوں کی زیادہ قیمتوں کے باعث فصلوں کی پیداوار مہنگی ہے،کیونکہ پاکستان میں کوئی کیمیکل یا دوائی نہیں بنتی، جب کہ بھارت میں کئی ادویات تیار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت اگر ٹیکس ہی ختم کردے تو ان ادویات کی قیمت 30 فیصد تک کم ہو جائے گی جس کے بعد پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔
اسی طرح پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے گندم کی کھپت اور پیداوار میں فرق بڑھ رہا ہے۔ زراعت کے شعبے پر عدم توجہی اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس قلت کے اسباب ہیں لیکن گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی سطح پر ناقص اسٹوریج میں 15.
پاکستان میں زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور ترقی کے لیے درست میکانائزیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بہت اہم ہوگا، چین میں فی کس ملکیتی رقبہ دنیا میں سب سے کم، محض اڑھائی ایکڑ ہے لیکن وہاں ویلیو ایڈیشن کی مدد سے کاشت کاروں کی سالانہ آمدن بڑھائی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے وسیع تر امکانات موجود ہیں کیونکہ یہاں دیہی افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ زراعت میں ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کرکاشت کاروں کو نہ صرف خسارے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ بے روزگاری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال لائیو اسٹاک کے شعبے کی ہے۔ پاکستان میں دودھ کی کل پیداوار میں بھینس کے دودھ کا حصہ آدھے سے زیادہ ہے۔ خالص اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی مناسب دیکھ بھال سے دودھ کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ساہیوال گائے کی اوسط پیداوار اور اس کی پیداواری صلاحیت کا فرق بھی بہت زیادہ ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ نیلی راوی اور ساہیوال گائے سمیت تمام دیسی نسلوں کا دودھ صحت بخش مانا جا رہا ہے۔
پاکستان میں نیلی راوی اور ساہیوال گائے کی پیداوار بڑھا کر یورپی ملکوں میں دودھ کی برآمد کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی درآمدات میں زرعی مصنوعات کا حصہ 10ارب ڈالر ہے، اگر زراعت لائیو اسٹاک فشریزکو ترقی دی جائے تو اس میں سے 8 سے 9ارب ڈالر باآسانی بچائے جاسکتے ہیں جب کہ قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھتے ہوئے افراط زر کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ سے دیہی لوگوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ خرگوش بھی انتہائی کم لاگت پر پلنے والا جانور ہے۔ یہ انتہائی تیزی سے افزائش کرتا ہے لٰہذا خرگوش فارمنگ سے صنعتی خام مال بھی پیدا ہوگا جس کی ویلیو ایڈیشن کر کے صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فش فارمنگ میں بھی غیر روایتی طریقوں کی مدد سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر ایسے زرعی علاقے جہاں نہری پانی دستیاب نہیں ہے اور زیر زمین پانی کڑوا ہے، وہاں پر شرمپ فارمنگ کی جا سکتی ہے۔ شرمپ کی بین الاقوامی منڈی میں بہت مانگ ہے جسے درآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر رہو مچھلی کی فارمنگ ہو رہی ہے جس کی پیداواری لاگت کافی زیادہ ہے، لیکن مچھلیوں کیکئی اقسام ایسی ہیں، جن کی پیداواری لاگت بہت کم ہے ،ان کی افزائش بھی تیزی سے ہوتی ہے اور یہ مچھلیوں کا گوشت بھی خوش ذائقہ ہے ، ان کا گوشت بھی آرگینک ہوتا ہے لیکن ابتدائی طور پر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوگی۔
زرعی شعبے میں تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) سب سے زیادہ نظر انداز دکھائی دیتی ہے اور پاکستان میں زراعت کا زیادہ تر انحصار ’غیر ہنرمند مزدوروں‘ پر ہے، کیونکہ ہمارا کاشتکار جدید زرعی ٹیکنالوجی یا زراعت کے جدید سائنسی طریقوں کو سمجھنے اور اِن سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے کسانوں کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ مسابقتی قیمت پر اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار نہیں کر پاتے۔
فوڈ سیکیورٹی، زرعی ترقی، دیہی علاقوں کی روزی روٹی اور شہری علاقوں کی طرف ہجرت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے حوالے سے لینڈ ڈویلپرز یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ذریعے زرعی اراضی کو تبدیل کرنے کے ممکنہ مضمرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ صوبوں کے درمیان زرعی اراضی کو ہاؤسنگ سوسائٹیز یا انڈسٹریل اسٹیٹس میں تبدیل کرنے کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین متعارف کرانے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
وطن عزیز میں زرعی زمینوں کو ہموار کر کے تقریباً 50 فیصد تک پانی بچایا جا سکتا ہے، ہموار زمینوں سے پیداوار بھی 10 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ زمین کی ملچنگ، بیڈ کاشت اور ڈرپ آبپاشی جیسے جدید ذرایع سے بھی 60 فیصد تک پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ زراعت ہی ایسا سیکٹر ہے جو پاکستان کوخوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ زراعت کے بل بوتے پر خوراک کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے، جنگلات بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں، پالتو مویشی بھی زراعت سے وابستہ ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو زراعت ترقی کرے گی، اسی رفتار سے گائے، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں، اونٹ اور دیگر پالتو جانوروں اور لکڑی کی بہتات ہوگی۔ ملک میں خوراک وافر ہوگی، دودھ،گھی، گوشت اور انڈوں کی فراوانی ہوجائے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زرعی پیداوار پیداوار میں کی پیداواری پاکستان میں ترقی کے لیے کیا جا سکتا کی پیداوار جا سکتا ہے جاسکتا ہے ا سکتا ہے اضافہ کی اور زرعی اضافہ ہو فیصد تک گندم کی تیزی سے میں بھی کی کاشت کی ترقی شعبے کی
پڑھیں:
معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کا روز خاصا مصروفیت میں گزارا۔ جمعہ کو ان کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا اور پھر اسی روز انھوں نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کا بھی دورہ کیا۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں اور صوبوں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وفاقی حکومت اس ضمن میں تمام صوبوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔
دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے، اس حوالے سے فیصلہ ساز ہی ہیں بلکہ عام پاکستانی تک حقائق سے آگاہ ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہوتا تو آج پاکستان ایشیا میں ایک اہم معاشی قوت ہوتا۔
بہرحال بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے معاشی اور سائنسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان اور افسر دن رات اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اردگرد کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے حالات کا سامنا اگر دنیا کے کسی اور ملک کو ہوتا تو شاید اس کی حالت صومالیہ یا کانگو جیسی ہوتی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔
پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ غیرقانونی تجارت اور ڈرگز کی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلنگ نے پاکستان کی مالیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ نقصان ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے اور پاکستان کے اندر بلیک منی ہولڈرز سسٹم کو کرپٹ کر کے پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ اسمگلنگ کے خلاف تمام اداروں کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنے، اہم شہروں میں سیف سٹی منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اپنے حصے کی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک شہروں، قصبوں اور دیہات میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔
سیف سٹی کیمرے جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی اور سرکاری عملے کی جوابدہی کے لیے بھی تمام سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور ان کیمروں کا کنٹرول مرکزی کنٹرول سسٹم میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کی ساری کارروائی سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہونی چاہیے۔ اس سے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں خاطرخوا اضافہ ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی ہو گی جب کہ جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کے دورہ کے دوران ٹیکس نظام میں بہتری، شفافیت، اور افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے مکمل خودکار نظام کے اجرا کی منظوری دی، جس کے تحت افسران کو ترقی اور مالی مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔
نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دہانی کرائی کہ نئے نظام کے تحت شاندار کارکردگی دکھانے والے افسران کو30 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہیں دی جائیں گی، ساتھ ہی ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کو نہ صرف ایف بی آر بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی۔
وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم بات ٹیکس لاز میں تبدیلیاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس قوانین واضح اور ابہام سے پاک ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افسران کے اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کے حوالے سے بھی قوانین واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
افسران اور دیگر عملے کو یکطرفہ اختیارات دینے سے ممکن ہے ریونیو کے اہداف تو حاصل کیے جا سکیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی بھی ہو سکتی ہے اور ان سے ناانصافی ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری افسروں کو حاصل قواعد وضوابط کے اختیارات کو بھی واضح طور پر ان کے آفس کے باہر آویزاں کرنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ افسر کے پاس کس قسم کے اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ افسروں کے کمروں کے اندر اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں کون کون آیا اور کتنا کام ہوا۔ اس طریقے سے سرکاری کام میں شفافیت پیدا ہو گی۔
وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا ہے تو محصولات کو بڑھانا ہوگا، قرضوں کی زندگی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے، عدالتوں میں زیرالتوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں، ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹم، سیلزٹیکس، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں بھی ہم سن چکے ہیں، ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے،محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27فیصد اضافہ لائق تحسین ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے،افسران محنت کریں اور قوم کی تقدیر بدلیں۔
عدالتوں سے23ارب روپے کا اسٹے آرڈر خارج ہوا توشام کو وہ پیسہ خزانے میں آگیا،البتہ ابھی گڈزکی مس ڈکلیئریشن سے متعلق کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا۔چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس میں کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعظم نے مالی سال2025 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.828 ارب ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ سال کے مقابلے 23فیصد اضافے کا خیر مقدم کیا۔
انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے آئی ٹی شعبے کو بروقت سہولیات کی فراہمی سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔انھوں نے کہا سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انھیں ہر ممکن سہولیات دیں گے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں، انھیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے۔
پاکستان کی معیشت میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے تو ٹیکس کولیکشن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن شعبوں کو مختلف قسم کے ٹیکسز میں استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے نام پر جو مراعات یا ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے یا عام عوام سے چندہ وصول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جو سرمایہ دار یا خوشحال شخص کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذاتی آمدنی سے کرے۔ سرکار سے مراعات لینا یا عام آدمی سے چندہ لینا بند ہونا چاہیے۔ کسی ٹرسٹ، وقف یا فلاحی ادارے کو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، فطرانہ یا صدقات کے نام پر چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اگر کسی کو کوئی مدد دینی بھی ہے تو وہ بذریعہ حکومت ہونی چاہیے تاکہ پورا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قوانین کو دو ٹوک اور واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے بااثر لوگوں کو مزید نوازنا ملک کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قبائلی وڈیروں، گدی نشینوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی طرززندگی کی مناسبت سے ٹیکس وصولی کا راستہ نکالنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔