UrduPoint:
2025-04-22@14:18:27 GMT

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2025ء) خواتین سے متعلق حقوق کی سرگرم افغان کارکن زہرہ موسوی طالبان حکومت کے جبر کے خلاف مہینوں کی لڑائی اور اس کے خلاف احتجاج کے بعد مارچ 2022 میں افغانستان سے فرار ہو کر پڑوسی ملک پاکستان پہنچی تھیں۔

وہ اب روپوش ہیں اور پاکستانی پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے اور اپنے آبائی ملک جلاوطن کیے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔

اگست 2021 میں جنگ زدہ ملک افغانستان میں اسلامی بنیاد پرست گروپ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد موسوی نے طالبان حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

انہوں نے عوامی اجتماعات اور مظاہروں میں حصہ لے کر خواتین کے حقوق کی وکالت کی اور افغان خواتین کی آواز کو باقی دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی۔

(جاری ہے)

لیکن طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر وسیع پابندیاں عائد کرنے اور بتدریج خواتین کو عوامی زندگی سے دور کرنے کے بعد، موسوی بھی وہاں سے جانے پر مجبور ہوئیں۔

پاکستان پہنچ کر انہوں نے ملک میں رہنے کے لیے ضروری دستاویزات کو محفوظ بنانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔

پاکستان: حکومتی کریک ڈاؤن اور مصائب کا شکار افغان پناہ گزین

تاہم 29 سالہ خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "زیادہ اخراجات اور پاکستان کی سخت ویزا پالیسیوں کی وجہ سے میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک درست پاکستانی ویزا حاصل نہیں کر سکی۔

"

وہ مزید کہتی ہیں، "اس کی وجہ سے 22 فروری کو پاکستانی پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ وہ سادہ کپڑوں میں میرے گھر میں داخل ہوئے، شدید تلاشی لی اور مجھے اور میری جوان بیٹی دونوں کو گرفتار کر کے، ہمیں جلاوطنی کے حراستی کیمپ میں لے جایا گیا۔"

"ہمیں وہاں دو دن اور ایک رات تک انتہائی سخت حالات میں رکھا گیا اور ہمیں ضمانتیں فراہم کرنے کے بعد اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے دباؤ کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔

" افغان خواتین کارکنوں کو اپنی جانوں کا خطرہ

پاکستان سے ملک بدری سے خوف زدہ موسوی کا بس یہی ایک معاملہ نہیں بلکہ بہت سی دیگر ایسی مہاجر خواتین کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے کئی دیگر افغان خواتین کارکنوں سے بات کی، جو چھپ کر رہ رہی ہیں کیونکہ اسلام آباد اب ایسے افغانوں کی ملک بدری کےعمل کو تیز کر رہا ہے۔

27 سالہ جمیلہ احمدی نے بتایا کہ ان کی کئی ساتھی افغان خواتین کو پہلے ہی افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے اور خبردار کیا کہ ان کے ساتھ ہی ان تمام خواتین کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

مغربی ممالک جانے کے منتظر افغانوں کو ملک بدر کر سکتے ہیں، پاکستان

احمدی نے کہا، "میری سرگرمیاں، خاص طور پر طالبان کے قبضے سے پہلے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے میری کوششیں، طالبان کے جرائم پر میری رپورٹنگ، اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) میں میری شمولیت، نے مجھے بڑے خطرے میں ڈال دیا ہے۔

"

ان کا کہنا ہے، "اگر مجھے طالبان کی حکومت میں واپس آنے پر مجبور کیا گیا تو واضح طور پر میرے لیے یہ ایک یقینی موت ہوگی۔"

خواتین کے حقوق کی بہت سی کارکنان نے اسی صورت میں پاکستان میں پناہ طلب کی تھی، جب طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں حالات ناگفتہ بہ ہو گئے۔

احمدی نے کہا، "فروری 2021 میں، مجھ پر حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک ٹانگ ٹوٹ گئی، لیکن میرا عزم متزلزل رہا۔

ایک بار پھر، ستمبر 2021 میں بھی طالبان نے ہمیں بڑی بے دردی سے مارا۔"

طالبان کا جبر نہیں تو پاکستان میں افغان پناہ گزین پریشان کیوں؟

ملک بدری کی ایک بڑی مہم

پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

اسلام آباد عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کے سبب طالبان حکام سے ناراض ہے۔

جیسے جیسے سرحد کے دونوں جانب کشیدگی بڑھ رہی ہے، پاکستان میں افغانوں کی خیریت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔

اسلام آباد اس وقت تقریباً 40 لاکھ افغانوں کی وطن واپسی کے لیے ایک بڑی مہم چلا رہا ہے جو گزشتہ چار دہائیوں کے دوران سرحد پار کر کے پاکستان پہنچے۔

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، پاکستان ستمبر 2023 سے گزشتہ سال کے آخر تک 800,000 سے زائد افغان مہاجرین کو پہلے ہی واپس بھیج چکا ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی

قانونی ماہرین اور پناہ گزینوں کے حقوق کے کارکنوں نے پاکستانی حکومت کے ملک بدری کے ان منصوبوں پر تنقید کی ہے، خاص طور پر جب بات افغان خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو ملک بدر کرنے کی ہو۔

اسلام آباد میں پناہ گزینوں کے وکیل، اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کارکنوں کو افغانستان واپس بھیجنا، جہاں ان پر طالبان حکومت کے ہاتھوں تشدد کا بہت زیادہ امکان ہے، انہیں مزید خطرے میں ڈال دے گا۔

" ملک بدری کے بڑھتے ہوئے خدشات

احمدی کا کہنا ہے کہ ملک بدری کی اس مہم سے ان کی صحت متاثر ہوئی ہے، "بدقسمتی سے، ایک ماہ کے زائد عرصے سے، پاکستانی پولیس نے پناہ گزینوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے، جس میں ویزا اور ویزے میں توسیع کے مسائل شامل ہیں۔ میرے ویزے کی معیاد 25 فروری 2025 کو ختم ہو گئی تھی۔ میرے ذاتی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل ویزا نہ ہونے اور اس میں توسیع نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔

"

پاکستان:رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے قیام میں ایک سال کی توسیع

انسانی حقوق گروپوں نے پاکستانی حکام پر افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے، تاہم اسلام آباد نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور زور دیا کہ یہ ملک بدری 2023 کی اسی مہم کا حصہ ہے، جسے "غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کا منصوبہ" کہا جاتا ہے۔

ایک پاکستانی اہلکار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ڈی پورٹ کیے جانے والے کارکنوں کے لیے کوئی مخصوص زمرہ نہیں ہے۔

افغان مہاجرین کی میزبانی کی ذمہ داری صرف پاکستان پر نہیں آنی چاہیے، کیونکہ دوسرے ممالک بھی انہیں جگہ دے سکتے ہیں۔"

پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ ایجنسی کو ملک بدریوں پر تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا، "یو این ایچ سی آر خاص طور پر ان افغانوں کے لیے فکر مند ہے، جنہیں واپسی پر نقصان کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے نسلی اور مذہبی اقلیتیں، تنہا خواتین، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، اور فنکارانہ پیشوں کے اراکین جیسے موسیقار وغیرہ۔

"

آفریدی نے کہا، "ان بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ادارے نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ خطرے میں پڑنے والے افغانوں کو تحفظ فراہم کرنا جاری رکھے، چاہے ان کی دستاویزات کی حیثیت کچھ بھی ہو۔"

بین الاقوامی مدد کا مطالبہ

کابل سے تعلق رکھنے والی ایک 34 سالہ کارکن ماریہ نوری، جنہیں ملک بدری کا سامنا ہے، نے عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے پاکستان میں خوف کے عالم میں زندگی بسر کرنے والی افغان خواتین کارکنوں کی زندگیاں بچانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "افغانستان واپس بھیجے جانے کا مطلب تشدد، قید یا موت کا سامنا کرنا ہوگا۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں، خاص طور پر خواتین کو ملک بدر کرنا ہماری زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے، اور ہماری حفاظت کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔"

اسامہ ملک نے مغربی حکومتوں کی بے عملی پر تنقید کی اور کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مغربی ممالک میں سے کسی نے بھی فوری طور پر ان خواتین کارکنوں کو اپنے ممالک کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی۔

نوری نے وضاحت کی کہ قانونی حیثیت اور رہائشی دستاویزات کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ "اس کے علاوہ، ہمیں سخت معاشی حالات، بے روزگاری، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی کی کمی، اور انتہا پسندوں کی طرف سے سکیورٹی کے خطرات کا سامنا ہے۔"

ص ز/ ج ا (ہارون جنجوعہ)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغان خواتین کارکنوں ان خواتین کارکنوں حقوق کے کارکنوں پاکستان میں پناہ گزینوں نے پاکستان اسلام آباد کارکنوں کو افغان پناہ طالبان کے میں افغان خواتین کو کی وجہ سے ملک بدری حکومت کے کا سامنا کے حقوق کرنے کی کے بعد کو ملک نے کہا کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز

پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔

سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔

پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔

سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔

صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔

تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔

افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان ہائیکورٹ نے بی این پی کے کارکنان کی رہائی کا حکم دے دیا
  • مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کیلئے پرعزم ہیں: وزیراعظم
  • امدادی کارکنوں کی شہادت، غزہ کے شہری دفاع نے اسرائیلی فوج کی تحقیقات مسترد کردیں
  • فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
  • اسرائیلی فوج نے فلسطینی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کو پیشہ ورانہ ناکامی قرار دیدیا، ڈپٹی کمانڈربرطرف
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • خواتین مردوں کے مقابلے میں لمبی عمر پاتی ہیں، تحقیقی رپورٹ
  • دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں لمبی عمر پاتی ہیں: اقوام متحدہ
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی