طیبہ طاہرہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
ام المومنین حضرت عائشہ ؓکا لقب صدیقہ تھا۔ آنحضرتﷺ آپ کو بنت الصدیق کہہ کر یاد فرماتے تھے، آٹھویں پشت میں آپ کا نسب حضورﷺ کے نسب سے مل جاتا ہے، ولادت، کسی بھی مستند تاریخ میں حضرت عائشہ ؓکی تاریخ ولادت کا ذکر نہیں ملتا’ تاہم امام محمد بن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت نبوتﷺ کے چوتھے سال کی ابتدا میں مکے میں ہوئی۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے، عموما ًہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش تک نہیں ہوتا اور نہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن حضرت عائشہؓ ؓلڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں۔ ان کی روایت کرتی تھیں۔ لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں۔ ہجرت کے وقت ان کا سن آٹھ برس تھا’ لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویﷺ کے تمام واقعات’ بلکہ تمام جزوی باتیں انہیں یاد تھیں۔ ان سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کو اس تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی سب سے پہلی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی جو آپ ﷺ کی سچی مونس اور غم خوار ثابت ہوئیں۔ مگر جب ان کی وفات ہوئی تو حضورﷺ کو بہت صدمہ پہنچا۔ آپﷺ ہمہ وقت پریشان رہتے تھے۔ ایک روز خولہ بنت حکیم آپﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپﷺ دوسرا نکاح فرمالیں۔
حضرت عائشہ ؓکا آنحضرتﷺ سے نکاح مشیت الہی میں مقدر ہوچکا تھا۔ جب یہ نکاح ہوا اس وقت آپ کی عمر 6برس تھی’ تاہم رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔ حضرت عطیہ’ حضرت عائشہ ؓکے نکاح کا واقعہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ ؓلڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ ان کی نانی آئیں اور انہیں ساتھ لے گئیں۔ حضرت ابوبکر نے نکاح پڑھا دیا۔حضرت عائشہ ؓکی تعلیم و تربیت کا اصل زمانہ رخصتی کے بعد شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اسی زمانے میں لکھنا پڑھنا سیکھا۔ رسول کریمﷺ سے قرآن پڑھا۔ آپ نے تاریخ و ادب کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ طب کا فن وفود عرب سے سیکھا تھا۔ اطبائے عرب جو نسخے آنحضرتﷺ کو بتاتے’ حضرت عائشہ ؓانہیں یاد کرلیتی تھیں۔ آپ کا گھر دنیا کے سب سے بڑے معلم شریعتﷺ سے آراستہ تھا۔ یہی درس گاہ حضرت عائشہ ؓکے علم و فضل کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔
حضرت عائشہ ؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں۔ وہ کوئی عالی شان گھر نہ تھا۔ مسجد نبویﷺ کے چاروں طرف چھوٹے متعدد حجرے تھے’ ان ہی میں حضرت عائشہ ؓکا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا۔ اس کا ایک اور دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا۔ اس حجرے کا صحن ہی مسجد نبویﷺ کا صحن تھا۔(آج کل اسی حجرے میں حضورﷺ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر آرام فرما ہیں) آنحضرتﷺ اسی دروازے سے ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ جب آپ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے’ حضرت عائشہ ؓاسی جگہ بالوں میں کنگھا کر دیتی تھیں۔ اس حجرے کی وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی۔ دیواریں مٹی کی تھیں۔ چھت کو کھجوروں کی ٹہینوں سے ڈھک کر اوپر سے کمبل ڈال دیا گیا تھا تاکہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا۔ گھر کی کل کائنات ایک چارپائی’ ایک چٹائی’ ایک بستر’ ایک تکیہ(جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجور رکھنے کے لئے دو برتن تھے۔ پانی کے لئے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لئے ایک پیالہ تھا۔ چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں’ گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔
اللہ کی طرف سے حضرت عائشہ ؓکی صفائی، آنحضرتﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی غزوے میں تشریف لے جاتے تو آپﷺ کی ایک بیوی خدمت گزاری کے لئے ساتھ ہوتیں۔ دو غزوات میں حضرت عائشہ ؓآپﷺ کے کے ہم راہ تھیں: غزوئہ بنی مصطلق اور غزوہ ذات الرقاع۔ اول الذکر غزوے سے واپسی پر ایک جگہ قافلہ نے پڑائو ڈالا۔ اندھیرے کی وجہ سے قافلے والوں کو علم نہ ہوسکا کہ حضرت عائشہ ؓاونٹ کے کجاوے پر موجود ہیں یا نہیں۔ حضرت عائشہ ؓکو قضائے حاجت سے فراغت میں تاخیر ہوگئی اور قافلہ رخصت ہوگیا۔ ام المومنین پیچھے بھاگنے کے بجائے قافلے کے قیام کی جگہ رک گئیں۔ حضرت صفوان بن معطل جن کی ڈیوٹی قافلہ کی گری پڑی اشیا کی نگہداشت تھی’ تھوڑی دیر کے بعد وہاں پہنچے تو حضرت عائشہ ؓکو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ انہوں نے اونٹ میرے قریب بٹھا دیا اور ”اناللہ” پڑھا۔ میں سوار ہوگئی۔ اس لفظ کے علاوہ پورے راستے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ نہیں سنا۔ ادھر مدینے میں منافقین نے طوفان اٹھا دیا۔ من گھڑت خبریں اور بے بنیاد الزام لگائے جانے لگے۔ حضورﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپﷺ بھی پریشان ہوگئے۔ حضرت عائشہ ؓپر حضرت صفوان کے ہم راہ تنہا سفر کو غلط رنگ دیا گیا۔ حضرت عائشہ ؓاپنے گھر تشریف لے گئیں۔ الزام کی صفائی اور تحقیق کے لئے آنحضرتﷺ نے صحابہ کا اعلی سطحی اجلاس مسجد نبویﷺ میں طلب کیا۔ آخر حضرت عمرکی رائے کے مطابق وحی الہی کے انتظار فیصلہ ہوا۔ اگلے ہی روز آیات قرآنی نازل ہوئیں تو آنحضرت ﷺاور حضرت ابوبکر سمیت تمام صحابہ کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ حضرت عائشہ ؓکی صفائی میں سترہ قرآنی آیات کا اترنا تھا کہ حضرت عائشہ ؓکی عظمت اسلامی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اسی طرح غزو ذات الرقاع کے موقع پر بھی حضرت عائشہ ؓکی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ آنحضرتﷺ حضرت عائشہ ؓسے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ کی عمر 67برس کی تھی کہ 58ھ میں رمضان کے مہینے میں بیمار ہوئیں۔ چند روز علیل رہیں۔ رمضان المبارک کی 17تاریخ کو نماز وتر کے بعد رات میں وفات پائی۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لئے
پڑھیں:
کار مسلسل
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔
فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔
اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔
فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:
عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے
کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے