سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد 1991 میں یوکرین، بیلاروس اور روس نے سی آئی ایس قائم کی تھی، یوکرین اب اس کا ایکٹیو ممبر نہیں ہے، لتھوینیا، لیٹویا اور ایسٹونیا اس میں شامل ہی نہیں ہوئے، سینٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستوں سمیت اب اس کے 10 ایکٹیو ممبر ہیں۔

اپریل 2023 میں سی آئی ایس یعنی کامن ویلتھ آف انڈیپینڈنٹ اسٹیٹ کا اجلاس ہوا تھا، اس موقع پر جو اسٹیٹمنٹ جاری کی گئی اس میں انتباہ کیا گیا کہ داعش، القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، ٹی ٹی پی، بلوچستان لبریشن آرمی، جنداللہ، جیش العدل، جماعت انصاراللہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) ریجنل اور گلوبل تھریٹ ہیں۔

عسکریت پسندوں کے ان ناموں پر غور کریں، اس میں ایران مخالف، پاکستان مخالف، چین مخالف تنظیمیں شامل ہیں، کچھ ایسی بھی ہیں جن کا ایجنڈا گلوبل ہے۔ ان سب کے خلاف سی آئی ایس کا مشترکہ بیان دیکھیں۔ اب اس کے ممبر ملک سوچیں جن میں ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر بائیجان شامل ہیں۔ روس اس تنظیم کا لیڈر ہے، اس مشترکہ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے ممبر ملک علیحدگی پسند بی ایل اے اور مذہبی شدت پسند ٹی ٹی پی کے بھی مخالف کھڑے ہیں۔

خیر سے ان ساری ہی تنظیموں کے فٹ پرنٹس افغانستان میں ملتے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند زرنج افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے بات کرتے رہے، زرنج نمروز افغانستان میں ہے، نمروز اور ہلمند دو ایسے افغان صوبے ہیں جہاں بلوچ بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ بی ایل اے کے دو دھڑے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ بشیر زیب کی بی ایل اے نے کیا۔ بی ایل اے آزاد حیر بیار مری کی رہنمائی میں کام کرتی ہے، حیر بیار بی ایل اے سے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔

حیر بیار مری آج کل اسرائیلی سائٹ میمری پر پر آزاد بلوچستان کا اپنا آئیڈیا پیش کرتے رہتے ہیں، حیر بیار کے آزاد بلوچستان میں ایرانی بلوچستان کا بڑا حصہ چاہ بہار بندرگاہ اور بندر عباس شامل ہیں، افغانستان سے نمروز اور ہلمند کے صوبے بھی اس بلوچستان کا حصہ بتائے جاتے ہیں۔

افغانستان سے مسلسل افغان طالبان کی اندرونی تقسیم کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں، وزیر داخلہ سراج الدین کے اختیارات ڈپٹی وزیر داخلہ ابراہیم صدر دیکھ رہے ہیں، افغان عبوری وزیردفاع ملا یعقوب جو ملا عمر کے صاحبزادے ہیں ان کی وزارت میں عبدالقیوم ذاکر اہم ہوگئے ہیں۔ عبدالقیوم ذاکر لو پروفائل رہنے والے طاقتور طالبان رہنما ہیں، ملا اختر منصور کو امیر بنائے جانے کے وقت یہ بھی امارت کے مضبوط امیدوار تھے، ان کا ہلمند، نمروز اور ایرانی بلوچستان میں بہت اثر ہے، ابراہیم صدر کا تعلق بھی ہلمند سے ہے۔

ان دونوں جوانوں کی پوزیشن دیکھیں بلوچ ایریا سے کنیکشن دیکھیں، اس کے بعد بشیر زیب اور حیر بیار کی بی ایل اے میں فرق نوٹ کریں ، آگے ڈاٹ ملانا آپ کا کام ہے۔ سراج حقانی طویل عرصہ منظر سے غائب رہنے کے بعد خوست میں ظاہر ہوگئے ہیں، وہ عوامی رابطے کررہے ہیں، افغان طالبان کی سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی یہ اختلافات حل کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر افغان طالبان کے اندر بھی سوچ کا اختلاف موجود ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دھڑے بندی اور تقسیم میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔

پاکستانی ریاست کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے ہاں امن قائم کرے، ایک پاکستانی ریاست وہ ہے جسے ہم سوشل میڈیا پر دھوتے ہیں، سیاسی عدم استحکام انتشار کی حد تک بڑھا ہوا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب ہے، ایک مقبول جماعت کا لیڈر جیل میں بیٹھا ہے، شدت پسندی کے علاوہ علیحدگی پسند بھی مسلح کارروائیاں تندہی سے کررہے ہیں۔ ملکی معیشت گرتی پڑتی چل رہی ہے، سوشل میڈیا بے قابو ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا غیر مؤثر ہے، عدالتی نظام دہشتگردی کے علاج میں معاون نہیں بلکہ کافی حد تک مددگار ہے۔

اتنے مشکل حالات میں چلنے والے ملک کی کوئی سٹرینتھ بھی تو ہوگی، پاکستان کا نظام جیسا بھی ہے یہ علیحدگی کی تحریکیں بھگت چکا، شدت پسندی، دہشت گردی کی لہروں کا سامنا کرچکا، 2 افغان جنگوں کے نتائج بھگت چکا اور ان میں حصہ لے چکا۔ ریاستی پالیسی جو بھی ہو کسی کو اچھی لگے یا بری اس پر عملدرآمد ہر ڈیزائن کے سیاستدان، آمر اور ادارے مذہبی جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر پر اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا، ایٹمی اور میزائل پروگرام مکمل کیا، سی پیک ون بھی بڑی حد تک مکمل کیا، افغانستان پر بھی دنیا ہمیں ڈو مور اور ڈبل پالیسی کے طعنے ہماری خدمات کے اعتراف میں ہی دیتی رہی۔

حکومت کسی کی بھی ہو، چیف کوئی بھی ہو، اپوزیشن جیسی بھی ہو، پاکستان اگر ریاست ہے جو کے ہے تو پھر اسے علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں دونوں کا علاج کرنا ہے، دنیا کے حالات کافی حد تک اس حوالے سے پاکستان کے لیے موافق ہیں، اس کے لیے پرانا حوالہ سی آئی ایس کا 2023 کا اجلاس ہے۔ نیا حوالہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی تعریف ہے۔ دہشت گردی کی یہ لہر تیزی سے اٹھی ضرور ہے، یہ وقتی ہے اس کا زور جلد ہی ٹوٹ جائے گا، اس کی وجوہات ہیں جن پر بات ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

wenews افغانستان بی ایل اے پاکستان دہشتگردی شدت پسند تنظیمیں عالمی برادری کارروائی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان بی ایل اے پاکستان دہشتگردی عالمی برادری کارروائی وی نیوز سی آئی ایس بی ایل اے حیر بیار شامل ہی کے لیے بھی ہو

پڑھیں:

معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے

پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ انہوں نے ایک مشترکہ پریس ٹاک کی۔ سفارتی دوروں میں اگر مشترکہ بیان جاری کیا جائے، اس سے مراد دونوں ملکوں کا اتفاق رائے ہونے سے لیا جاتا ہے۔ الگ الگ پریس نوٹ جاری کرنے سے مراد ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نہیں ہوا۔ مشترکہ پریس کانفرنس اتفاق رائے کے مثبت اظہار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
پاکستانی وفد کے استقبال کے لیے امیر خان متقی خود ائیر پورٹ نہیں آئے تھے۔ ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے اسحق ڈار سے طے شدہ ملاقات سے گریز کیا۔ رئیس الوزرا ملا حسن اخوند سے البتہ ان کی ملاقات ہو گئی۔

ڈار نے کابل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بہت اہم باتیں کی۔ ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے اعلان کیا۔  ازبکستان سے آنے والا ریلوے ٹریک خرلاچی (کرم ایجنسی) کے راستے پشاور سے مل جائے گا۔ افغانستان کو گوادر اور کراچی دونوں بندرگاہوں تک رسائی مل جائے گی۔

افغانستان کے لیے 1621 آئٹمز پر پاکستان 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرتا تھا۔ اس لسٹ سے 867 آئٹم کو ڈیلیٹ کرنے کے ایک بڑے ریلیف کا بھی اعلان کیا گیا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ جو 2021 میں ختم ہو چکا ہے، اسے بھی اسی سال فائنل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ خیبر پختون خوا حکومت افغان آئٹم پر 2 فیصد سیس ڈیوٹی عائد کرتی تھی اس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ افغان تاجروں کو امپورٹ کے لیے زرضمانت جمع کرنا پڑتا تھا اس کا بھی خاتمہ کرکے بینک گارنٹی لینے کی افغان حکومت کی تجویز مان لی گئی ہے۔ این ایل سی کے علاوہ بھی 3 مزید کمپنیوں کو تجارتی سامان کی ترسیل میں شامل کرنے کی افغان تجویز بھی مان لی گئی ہے۔

پاکستان، افغانستان اور چین کا سہ ملکی فارمیٹ بحال کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ دونوں ملکوں کی قائم کردہ جوائنٹ کو آرڈینیشن کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے اسحق ڈار نے سیاسی امور کے لیے بھی فوری طور پر ایک رابطہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ افغان مہاجرین کی واپسی ان کے ساتھ زیادتیوں اور جائیداد کے معاملات کے حل کے لیے بھی ہیلپ لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس مشترکہ پریس ٹاک میں ہونے والے اعلانات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر باتیں تجارتی اقتصادی حوالے سے کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی نے تعلقات بحالی کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ایک ہی دن 16 اپریل کو پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود کابل اور اسلام آباد پہنچے تھے۔ نورالدین عزیزی کی قیادت میں وفد پاکستان آیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل پہنچے ہیں۔

17 ماہ کے طویل وقفے کے بعد پاک افغان جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس کابل میں ہو سکا تھا۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جے سی سی اجلاس کے موقع پر کہا کہ اس فورم نے ہمیشہ مسائل حل کیے ہیں۔ اس بار سیکیورٹی ایشوز، تجارت، ڈیورنڈ لائن پر ٹینشن ( ٹی ٹی پی، لوگوں کی آمد و رفت اور افغان مہاجرین ) کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے پر بات چیت ہو گی۔

جے سی سی میں افغان وفد کی قیادت ملا عبدالقیوم ذاکر نے کی تھی۔  ذاکر امریکا اور اتحادیوں کے خلاف لڑائی کے دوران افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملا اختر منصور کے بعد طالبان کا نیا امیر بننے کا مضبوط امیدوار بھی سمجھا جا رہا تھا۔  عبدالقیوم ذاکر جے سی سی اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کے لیے ایک ہیوی ویٹ شخصیت ہیں۔ اس کا پتہ تب لگے گا جب آپ ان کا پروفائل دیکھیں گے، ان کا نام اور کام ایران بلوچستان امریکا اور شمالی افغانستان تک دکھائی دے گا۔

پاکستان افغانستان مہاجرین کی واپسی، ٹی ٹی پی اور دوسرے اختلافی امور کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان اختلافی امور کا حل ضروری ہے۔ معیشت وہ پوائنٹ ہے جہاں موجود امکانات دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب لائے  ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے ساتھ اپنے انداز میں نپٹنے کے لیے تیار ہے۔ پاک افغان باڈر پر اب ریموٹ کنٹرول چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔  افغان طالبان حکومت مہاجرین کی واپسی کو برداشت کرے گی۔ معیشت اب وہ ڈرائیونگ فورس ہے جو بہت متنازعہ معاملات کو بھی غیر متعلق کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • منرلز بل پر تنقید کے پیچھے پورا مافیا، عمران خان سے ملاقات میں بات کلیئر ہو جائےگی، علی امین گنڈاپور
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار
  • اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  • کابل؛ اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  • افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق