Express News:
2025-04-22@06:20:04 GMT

غزوۂ بدر

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

مدینہ منورہ سے اسّی میل کے فاصلے پر ’’بدر‘‘ ایک گاؤں تھا، جہاں حق و باطل کے درمیان پہلا بڑا معرکہ بپا ہُوا، اسی مناسبت سے اسے غزوۂ بدر کا نام دیا گیا۔ یہ لڑائی سترہ رمضان سن دو ہجری کو لڑی گئی، جس میں تین سو تیرہ مسلمان اور ایک ہزار کفار شامل ہوئے۔

سیرت و تاریخ کی مستند کتب کے مطابق مشرکینِ مکہ کے پاس سات سو اُونٹوں کے علاوہ درجنوں گھوڑے اور سیکڑوں کی تعداد میں تیر و تلوار اور جنگی اسلحہ موجود تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مسلم لشکر کے پاس صرف ایک سو ستّر اُونٹ، دو گھوڑے اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اب ہم میدانِ بدر کے جزوی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس جنگ کے نتائج کا ایک نظر جائزہ لینے کے بعد اُن حکمتوں اور اسباق کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو دورِ حاضر میں برپا حق و باطل اور ظالم و مظلوم کی کش مکش کے ضمن میں راہ نما اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ غزوۂ بدر کے نتیجے میں ستّر کفارِ مکہ ہلاک ہوئے اور اسی قدر گرفتار کرکے مدینہ منورہ لائے گئے، جب کہ صرف چودہ مسلمان درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔

اس تمہید کے تناظر میں غزوۂ بدر کے اسباب و نتائج کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک حتمی نتائج اور ناکامی و کا م یابی کے لیے تعداد کی کمی و زیادتی اور مال و دولت اور وسائل کی قلّت و کثرت ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور اس بابت اصل اور بنیادی اہمیت معیار کی ہے، وگرنہ بے سر و سامان تین سو تیرہ کی اقلیت کا مادی و جنگی ہتھیاروں سے لیس ایک ہزاری اکثریت سے کیا مقابلہ تھا۔۔۔۔ ؟

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’بارہا! ایک قلیل سا گروہ ایک کثیر اور بڑے گروہ پر اﷲ تعالٰی کے حکم سے غالب آیا ہے اور اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ) گویا نہتّے، کم زور اور مظلوم طبقات کو ظالموں اور کافروں کی اکثریت اور مادی شان و شوکت سے مرعوب ہوکر مایوس نہیں ہونا چاہیے بل کہ صبر و استقامت کے ساتھ حق و صداقت اور عدل و انصاف کے ثبات و قیام کی جدوجہد کو بہ ہر صورت جاری رکھنا چاہیے۔ معرکہ بدر کا ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ جہاں مخالفانہ اکثریت و قوّت سے خوف زدہ ہوکر حق مشن کو ترک نہیں کرنا، وہاں باطل طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم اِس قدر مادی وسائل اور قوّت ضرور حاصل کرنا لازمی امر ہے کہ دشمنوں پر رعب و دبدبے کا باعث بن سکے۔

قرآن حکیم سورۂ انفال کے مطابق، مفہوم: ’’اور ان دشمنوں کے مقابلے کے لیے جس قدر امکانی قوّت اور سرحدوں کی حفاظت کا سامان مہیّا کرسکو کرو، جس کے ذریعے تم اﷲ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرتے رہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے۔ اﷲ انہیں جانتا ہے۔‘‘

غزوۂ بدر کے پیچھے نبی اکرم ﷺ کی پندرہ سالہ اجتماعی و انقلابی محنت موجود ہے اور ہر ممکن افرادی و مادی قوّت تیار کرچکنے کے بعد اِس اجتماعیّت کو بدر کے میدانِ کارزار میں اتارنے سے قبل آقائے نام دار ﷺ اپنے رب کے حضور سر بہ سجود ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اﷲ! اگر آج مسلمانوں کی جماعت مٹ گئی تو اس کے بعد تیری زمین پر تیرا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔‘‘

نبی اکرم ﷺ نے بدر کی گرم جنگ سے پہلے دین اسلام کے حق، نظریہ اور آفاقی اصولوں پر تیرہ سالہ مکی دور میں صحابہ کرامؓ کی منظم و تربیت یافتہ جماعت تشکیل دی اور اس مثالی جماعت کو بیسیوں مرتبہ کٹھن اور جاں گسل آزمائشوں سے گزار کر کندن بنا دیا، جس کے بعد مدینہ منورہ میں ریاستی نظام وجود پذیر ہُوا اور اس مرکزی وحدت و نظام کے تحت قتال اور گرم جہاد کی اجازت دی گئی۔ اس سے پہلے مشرکینِ مکہ کے بے پناہ مظالم اور بعض صحابہؓ کی شدید خواہش کے باوجود ’’کْفّْو اَیدِیکْم‘‘ کے تحت برداشت اور عدمِ تشدد کے سخت نظم و نسق کو قائم رکھا گیا۔

سورۂ بقرہ کے اندر طالوت و جالوت کے معرکے میں بھی بنی اسرائیل اپنے نبی سے جنگ لڑنے سے قبل بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر جالوت کا مقابلہ کرنے کے لیے طالوت کو ان پر حقِ حکم رانی تفویض کیا جاتا ہے تب جنگ و قتال کی نوبت آتی ہے۔ حسنِ اتفاق ہے کہ مفسرین و مؤرخین کے مطابق بدری مجاہدین کی طرح طالوت اور حضرت داؤدؑ کے لشکر کی تعداد بھی تین سو تیرہ ہی تھی، جنہوں نے نظریۂ توحید و عدل پر منظّم ہو کر ظالم و مشرک جالوتی اکثریت کو شکستِ فاش دی، جس کے نتیجے میں عظیم الشان داؤدی سلطنت وجود میں آئی۔

غزوۂ بدر سے ایک اور سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ معرکۂ حق و باطل اور کش مکشِ ظلم و عدل کے باب میں نظریات اور اصول اہم ہوتے ہیں نہ کہ خونیں ناتے اور رشتے داریاں۔ اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ تمام محبتوں اور عقیدتوں کے مقابلے میں خدا اور اُس کے رسولؐ کی محبت و عقیدت مقدّم اور بالا تر ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔‘‘ بلاشبہ! آج کے دور میں نبوی مشن کو اوّلین ترجیح اور مقصد حیات بنائے بغیر محبت رسولؐ کے بلند بانگ دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں۔ شمع رسالت ﷺ کے پروانوں نے جنگِ بدر میں حق و انصاف کی خاطر اپنے ہی سگے بھائیوں اور خون کے رشتوں کے مدِمقابل آکر ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔

حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ہی بیٹے کا سامنا تھا جس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ کافروں کا ایک سردار عتبہ میدان میں نکلا تو اُس کے بیٹے حضرت حذیفہؓ اپنے ہی باپ کے مقابلے میں سامنے آئے اور حضرت عمر فاروقؓ کی تلوار اپنے ہی ماموں کے خون سے سرخ ہوئی۔ اسی طرح اسیرانِ جنگ میں کسی رشتے داری اور تعلق کو مدنظر نہیں رکھا گیا، اور ان سے باقی قیدیوں کی طرح قانون کے مطابق برابری کا سلوک کیا گیا۔ بعد ازاں جب بدر کے قیدیوں سے رہائی کے لیے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا اور جو فدیہ دینے کے قابل نہ تھے اُن کو تاکید کی گئی کہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں اور جو اس کے اہل بھی نہ تھے، اُنہیں ویسے ہی آزاد کرکے اُن پر احسان کیا گیا۔ اب یہاں پر جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک اور تعلیم و تعلم کے باب میں رحمت اللعالمینؐ اور کائنات کے معلّم اعظمؐ کا اُسوۂ حسنہ آج کے اس سائنسی دور میں مسلم ممالک کے علمی و اخلاقی زوال کی نشان دہی کرتے ہوئے ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا درس دے رہا ہے۔

غزوۂ بدر میں اﷲ تعالٰی نے مومنین کی مدد فرمائی جس میں بارش کا بروقت برسنا، مسلمانوں کے دلوں میں اطمینان و سکون نازل کرنا اور فرشتوں کا نازل کرنا شامل ہے۔

قرآن حکیم میں اﷲ رب العالمین نے فرمایا: ’’یقیناً خدا نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم کم زور تھے، پس اﷲ سے ڈرو تاکہ تم شُکر گزار بن جاؤ۔‘‘ (سورہ آل عمران)

اب یہاں پر یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ عالم مادی میں ہم کوشش کے مکلّف اور روادار ضرور ہیں جو کہ دارالاسباب اور دارالعمل ہے اور ہمیں یہاں جدوجہد کرنے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے لیکن نتائج پیدا کرنے پر ہم پوری طرح قادر نہیں ہیں، بل کہ عالمِ مادی کے اُوپر اﷲ تعالٰی کا ایک ماورائی اور غیبی نظام بھی کام کر رہا ہے جو کہ مادی نظام پر غالب اور بالادست ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بدر میں کم وسائل کی حامل ایک محدود سی اقلیت اپنے مدمقابل مادی و افرادی وسائل سے لیس اکثریت کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے، اسی کو قرآن حکیم خدائی مدد قرار دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ نصرتِ الٰہی کے لیے سچائی اور عدل کی علم برداری پہلی اور جہدِ مسلسل دوسری لازمی شرط ہے۔ از روئے قرآن: ’’اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قرا ن حکیم کے مقابلے اﷲ تعال ی کے مطابق اپنے ہی بدر کے کے لیے کا ایک اور اس

پڑھیں:

کراچی پیاس کا صحرا

حیات انسانی ابتدائے آفرینش ہی سے اپنے دوام کے لیے فطری طور پر ایسے لازمے کی رہین منت رہی کہ جس کے بناء اسے دھرتی پر اپنا جیون معدوم سا محسوس ہونے لگا۔

اور یہ کوئی دم کی حاجت نہیں بلکہ شب و روز کا دستور ٹھرا۔

ایسے میں قدرت نے اس کی راہ نمائی فرمائی، اور یہ حاجت برآری اس کے اپنے زور بازو سے مشروط کردی۔ یوں خوراک اور پانی کی کھوجنا ہی اس کا مقصد حیات قرار پائی۔

اب آتی جاتی سانس کے ضامن خورونوش پر مبنی یہ دو اجزاء، روز اول سے ہی اسے متحرک رکھ کر اس کے وجود کو مدام بخشتے رہے۔

کاروان حیات کو رواں دواں رکھنے کی خاطر وہ اگر برساتی نالوں، ندیوں، دریاؤں اور پہاڑی جھرنوں سے اپنے تشنہ لبوں کو تر کرتا ہے، تو فوراً ہی دوسرے مرحلے پر اسے شکم کی پکار کو لبیک کہنا ہے، جس کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر جنگلی جانوروں سے پنجہ آزمائی، جہاں چند ساعتوں میں شکار اور شکاری کی ترتیب الٹ جاتی، اور شکاری شکار کے لیے لقمۂ تر بن جانے کا اندیشہ۔

ہر نیا دن دشت بے اماں میں مقدر کے کھیل سے شروع ہوتا۔ اب مقدر کی لغت کی اپنی تفہیم ہی نرالی ہے۔ کبھی تو یہ سانجھی بن کر راہوں میں پھول بکھیر دیتا ہے، اور کبھی بیری بن کر ببول بو دیتا ہے۔

یوں کبھی پورا دن خالی ہاتھ گزر جاتا، تو شام کے سائے پھیلتے ہی بھوک کا آکٹوپس اس کے ناتواں جسم میں پنجے گاڑنے لگتا۔ اس گھاؤ کو سہتے یہ محروم رات تو ٹل جاتی، اور پھر نور کے تڑکے ایک نئی امنگ اور نئے حوصلے کے ساتھ جیت کی امید لئے میدان میں اترنا ہے، جہاں مات کی صورت اس کی اپنی زندگی داؤ پر لگی ہے۔ بڑی کٹھن ہے یہ زیست۔

غذا کا ایک لقمہ اور پانی کی دو بوندیں، کسی ایک مقام پر دستیاب ہوں۔ بس اِس مقام کے حصول کی تمنا نے اسے قریہ قریہ پھرنے پر مجبور کردیا۔

یوں فطرت نے کس قدر پریت سے اسے جہد مسلسل کا استعارہ بنا دیا۔

جیون اسی تذبذب میں گزرتا رہا کہ جب کسی مقام پر شکار کی صورت گوشت کی فراوانی ہے، تو دور دور تک پانی نایاب، اور پانی کی قربت ہے تو غذا ندارد۔

ایک عرصہ اس کٹھنائی سے نبردآزما رہ کر اس نے جانا کہ اب ذخیرہ آب کی قربت میں اسے شکم سیری کا گر اپنانا ہے۔ اس کلیے کو اپناکر قریب کی زرخیز زمین سے غذا کے قابل اجزاء کے حصول سیکھتے کئی اور صدیاں بیت گئیں۔

بالآخر اس نے ان دو ضروریات کو مربوط رکھنے میں کام یابی حاصل کرلی۔

یوں اس کی سرشت میں موجود سیلانی فطرت کا عنصر جب کچھ کم ہوا، تو دریاؤں کے قریب گروہ کی شکل میں سکونت اختیار کرنے سے رفتہ رفتہ ایک سماج تشکیل پانے لگا، اس طرح سماج کا اپنا ایک تمدن بھی وجود میں آرہا تھا۔

کھیتی و دیگر ضروریات کے لیے پانی کو اپنے مطلوبہ مقام تک لے آنے کی حکمت عملی کے باعث ان گروہوں کے قیام کا دورانیہ طویل ہونے پر آبادی وسعت اختیار کرنے لگی۔

اور یہ آغاز تھا کرۂ ارض کے کچھ گوشوں پر تہذیبیں اُستوار ہونے کا۔

ان تہذیبوں کے مکینوں کی پانی کو رفتہ رفتہ کو سوں دور تک منتقل کرنے کی کام یاب کاوش، انسانی سماج میں فرا ہمی آب کی ابتدائی شکل تھی۔

کئی صدیوں پر مشتمل فراہمی آب کے اس پورے تاریخی تناظر میں مشاہدہ کریں گے کہ کراچی کے باسی، شہر کے مضافات میں ہونے والی کاشت کاری اور اندرون شہر پینے کے پانی کی دستیابی کے کن ذرائع سے فیض یاب ہوتے رہے۔

پانی کی قربت سے جنم پانے والی مصر، میسو پوٹیما اور چین کی طرح سندھ کی تہذیب بھی دریائے سندھ کے کناروں پر وجود میں آئی۔ مگر اِس وادی سندھ کے شہر کراچی کے دامن میں ابتدا ہی سے دریائے سندھ کا آب شیریں نہیں بلکہ بحیرہ عرب کا آب شور موجود تھا، اور یہ شاید کراچی کی خوش قسمتی تھی کہ یہی آب شور اس کے لیے آب حیات بن گیا۔ سمندری بندرگاہ کی حیثیت نے کئی صدیوں سے میٹھے پانی کی کم یابی کے باوجود اس شہر کو مرکز نگاہ بنائے رکھا۔

برصغیر کے ایک وسیع حصے کو درآمدوبرآمد میں معاون بننے والی اس ساحلی پٹی میں ابتدا ہی سے پینے کے پانی کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا۔ اس کے باوجود کیماڑی سے ملیر کے آس پاس پھیلے ساحل پر ٹکڑیوں میں بسے لوگوں کو آباد رکھنا تجارتی نکتہ نظر سے ضروری بھی تھا۔

کراچی کے شہریوں نے پانی کی اس قلت کا قدرِ مشکل حل لیاری اور ملیر کی برساتی ندیوں کی صورت میں تلاش کر لیا تھا۔

ملیر اور لیاری ندی کے زرخیز کناروں پر بسے لوگوں نیندی کے قرب و جوار میں کنوئیں کھود کر وسیع پیمانے پر کھیتی کو فروغ دیا۔ سبزیوں کے کھیت اور پھلوں کے باغات نے کراچی کے باسیوں کو ان دو اجناس میں خود کفیل کردیا تھا۔

کراچی کی سرسبز زمین پر اُگنے والی ہمہ اقسام کی سبزی کے علاوہ موسم کے معروف پھل، امرود، پپیتا، چیکو، خربوزہ، تربوز سمیت ملیر کے رسیلے آموں کا ذائقہ چکھنے والے کراچی کے قدیم باسیوں میں شاید اب بھی کوئی بقید حیات ہو۔ ان خوش ذائقہ آموں کا شہرہ شہر سے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔

کھیتی اور پینے کے پانی کی اس طور دستیابی کے طفیل شہر کی سانسیں کسی نہ کسی طرح چلتی رہیں۔

مگر کیا کیجیے کہ تبدُل و تغیر کے قانون سے کسی کومفر ممکن نہیں اور فطرت کے اس قانون کے تحت اب کراچی اپنا چولا بدل رہا تھا۔

اس بدلاؤ کا آغاز کچھ اس طور ہوا، جب یہاں سے کچھ میل دور حب ندی کے دہانے پر معروف بندرگاہ ’کھڑک بندر‘ جہاں بارشوں کے سبب رفتہ رفتہ ندی سے سمندر میں ریت کی منتقلی کے سبب گہرائی میں ہوتی گئی کمی، اور بالآخر 1728ء میں جب تندوتیز بادوباراں کے کارن ریت بھر جانے کے سبب یہ بندرگاہ ناقابل استعمال ہوگئی تو دوسری بندرگاہ کی تلاش کے لیے درآمد و برآمد کے معروف تاجر سیٹھ بھوجومل نے بھیجے کارندوں کی جوہرشناس نگاہوں نے اس سال کیماڑی بندر کو تلاش کرلیا۔

بھو جو مل کے درآمدی و بر آمدی کاروبار کے کیماڑی منتقل ہونے کے کچھ عرصے بعد ٹھٹھہ کے قریب شاہ بندر اور لاہری بندر نامی دونوں بندرگاہوں کے تاجر بھی اپنے کا روبار یہاں لے آئے۔

یہ تمام تاجر اپنے خاندان اور عملے کے لاؤ لشکر سمیت اپنے پرانے ٹھکانوں کو چھوڑ کر کراچی آگئے، تو وہاں کے رہائشی بھی سکڑتے کاروبار سے پریشان ہوکر نئی جگہ قسمت آزمائی کے لیے اس شہر کا رخ کرنے لگے۔ یوں چند ہزار نفوس کی آبادی کا یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے وسیع ہونے لگا۔

اب یہ ماہی گیروں کی بستی سے تاجروں اور دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کے شہر میں بدل رہا تھا۔ آبادی کھارادر اور میٹھادر کی قلعہ بند فصیل کے اندر بڑھ رہی تھی۔ اِن نئے آباد ہونے والوں کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ندی کے میٹھے پانی کے علاوہ ان کے علاقوں سے لگ بھگ ایک میل کے اندر پانی کے کچھ قدرتی چشمے موجود تھے، جن سے طویل عرصے تک یہ لوگ پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت پوری کرتے رہے۔

لیاری اور ملیر ندی کے آس پاس کنوئیں اور مندرجہ بالا قدرتی چشمے یہاں کے باسیوں کی پیاس بجھاتے رہے، مگر 1839ء میں کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے کچھ سالوں بعد شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں سے کھلنے والے روزگار کو حاصل کرنے کے لیے آس پاس کے لوگ اس شہر کی طرف بڑھنے لگے۔ تو ان کنوؤں اور چشموں کی استعداد ختم ہونے لگی۔

1729ء کے تقریباً سو سال بعد آبادی کا ان چشموں سییہ دوسرا ریلا ان ہی چشموں کے قریب بہنے لگا۔ رفتہ رفتہ ان چشموں سے نکلنے والے پانی کی مقدار ’ایک انار سو بیمار‘ کی سی ہونے لگی تو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے برسوں پیاس بجھانے والے قدرت کے اس انمول تحفے پر تعمیرات کرکے اسے بند ہی کردیا۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہونے والی ایسی سنگین غلطیاں اپنا خراج ضرور وصول کرتی ہیں، اور وہ بھی سود کے ساتھ۔

شاید ان لوگوں کو پانی کی حیثیت کا پتا نہیں، انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قدیم تہذیبوں کے لوگ پانی کا پرستش کی حد تک احترام کرتے اور پینے کے پانی کے بڑے منبع یعنی دریا کی پوجا کر تے تھے۔

موہن جو دڑو کے تقریباً ہر گھر سے ایک کنواں دریافت ہوا ہے، وہ پانی کے اس ذریعے کی اپنے گھر میں موجودگی کو نیک شگون قرار دیتے تھے۔

انگریزوں کی آمد کے بعد شہر کی آبادی میں تیزرفتار اضافے نے شہری انتظامیہ کو جس مسئلے سے دوچار کیا وہ پینے کے پانی کا تھا۔

1852 ء تک بائیس ہزار نفوس تک پہنچنے والی آبادی کو سات کنوئیں اور پانچ چشمے سیراب نہ کر سکے تو مزید پانچ کنوئیں اور کھدوائے گئے، مگر کنوؤں کی کھدائی مکمل ہوتے ہوتے کراچی کے اطراف کے مزید لوگ یہاں منتقل ہوجاتے۔ اور پانی ایک مسئلہ بن کر اپنی جگہ کھڑا رہ جاتا۔

کچھ مخیر پارسی حضرات نے بھی اپنے طور پر کئی کنوئیں کھدوا کر میونسپل کمیٹی کے حوالے کئے، مگر بات نہ بن سکی تو شہری انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر ڈملوٹی کے مقام پر دس گہرے کنوئیں کھدوائے، ان سے حاصل ہونے والے پانی سے شہری اب اطمینان سے اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے لگے۔ رسد اور طالب میں توازن پیدا ہوگیا۔

کنوؤں کے اس پانی کو بڑے پائپوں کے ذریعے شہر کے ذخائر آب تک پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے پائپوں ہی کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں تک یہ پانی فراہم کیا جاتا رہا۔

یہ ذخیرۂ آب شہر کے مختلف علاقوں میں تعمیر کیے گئے جن میں رام باغ، کسٹم ہاؤس اور کھوڑی گارڈن کے ذخیرہ آب (حوض) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حوض کا علاقہ اب بھی اپنے پرانے نام رتن تلاء سے معروف ہے (مقامی زبان میں حوض کو تلاء کہا جاتا ہے)

مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شہر کے فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہونے سے یہاں کی معیشت پر مثبت اثر پڑا، یوں روزگار کے مزید دروازے کھلنے پر آبادی بڑھی، تو پانی کی فراہمی اور خرچ کا توازن ڈولنے لگا، اور بالآخر 1940ء میں پانی کی بڑی مقدار میں سپلائی کے لیے ’’ہالایار‘‘ نامی اسکیم متعارف کرائی گئی۔ اس اسکیم کے تحت دریائے سندھ کے پانی کو کلری جھیل تک پہنچانے کے لیے ایک نہر نکالی جانا تھی، اور کلری جھیل سے ایک پختہ نالے کے ذریعے پانی کو گھارو تک لانا تھا، جہاں ایک فلٹر پلانٹ کے ذریعے پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے بعد کراچی تک پہنچانا تھا۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اسکیمیں مکمل ہونے کے عرصے کے دوران بڑھتی آبادی ان تمام اسکیموں کو ناکامی سے دوچار کر دیتی۔

ہالایار اسکیم کی فعالیت کے ناکافی ہونے پر 1945ء میں ہالیجی اسکیم پر کام کا آغاز کیا گیا۔

1947ء میں آبادی کا دباؤ بڑھا تو 1954ء میں کے ڈی اے کے زیراہتمام ’گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم‘ شروع کی گئی۔

اور رسد و طلب کا یہ توازن آج 2025ء تک زلف یار کی طرح الجھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • ب فارم کیلئے نادرا دفتر جانے کی ضرورت نہیں،گھر بیٹھے بنوائیں
  • کراچی پیاس کا صحرا
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلی
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • پیکر کردار مثالی لوگ