خیبر پختونخوا میں تشدد میں اضافہ کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مارچ 2025ء) صوبائی حکومت نے دارالحکومت پشاورسمیت دیگر اضلاع میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سرکاری عہدیداروں کو رات کے وقت سفر نہ کرنے اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ یہ حکم نامہ اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد جاری کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنا ہے۔
اسی طرح افغانستان سے ملحقہ تین ضم قبائلی اضلاع کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دلاور وزیر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’'کرفیو کا نام ہی ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے شہریوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔
(جاری ہے)
ضم قبائلی اضلاع کے سیاسی اتحاد نے کرفیو کے نفاذ کی مخالفت کی ہے جب کہ تاجر برادری بھی اس کرفیو سے متاثر ہو رہی ہے۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے بازاروں سمیت اعظم ورسک کا بڑا بازار بھی بند ہے، جس کی وجہ سے عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر کے بقول جنوبی اور شمالی وزیرستان میں نسبتا امن ہے لیکن سکیورٹی فورس کی نقل و حرکت کی وجہ سے بھی بعض اوقات کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔‘‘
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہخیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی اس لہرکے دوران زیادہ تر مذہبی شخصیات، سکیورٹی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےافسران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سےعام شہریوں میں خوف بڑھتا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والی پولیس کومسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان سرحد سے متصل پاکستانی اضلاع میں دہشت گردی اور بدامنی کےواقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت کی گزرگاہیں بھی کئی کئی ہفتوں کے لیے بند ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث افراد میں زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے جبکہ افغان حکام کے اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاںجہاں صوبے کے بعض علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے، وہیں جنوبی اضلاع کے بعض علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے سرحدی اضلاع ٹانک،جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ضلع خیبر جیسےعلاقوں میں کرفیو سمیت دہشت گردوں کےخلاف آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں، تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مسلسل کارروائیوں سے ہلاکتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ علاقہ عدم استحکام کا شکار ہونے کے خدشات ہیں۔
دہشت گردی کی اس نئی لہر کے حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے قبائلی اُمور کے ماہر شمس مومند سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ابھی حکومت نے جتنے بھی آپریشن شروع کیے ہیں، عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ ماضی کی طرح پراکسی وار نہیں بلکہ آپریشن کے بعد باقاعدہ طور مارے جانے والے دہشت گردوں کے تصاویرجاری کی جاتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سال رواں کے دوران سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کے دوران مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
پہلے دہشت گردانہ حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں کا جانی نقصان زیادہ ہوتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور پولیس اورفوج کامیابی سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔‘‘امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے خیبر پختونخوابھر کےعوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فوجی آپریشن، بم دھماکے، خود کش حملے اور فرقہ ورانہ فسادات نے صوبے کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بدامنی کی وجہ سے تاجروں کی ایک بڑی تعداد دیگرصوبوں یا بیرون ملک منتقل ہوچکی ہیں۔ ضم قبائلی اضلاع میں آئے روز آپریشن اورکرفیوکی وجہ سے بھی مقامی آبادی نقل مکانی پرمجبور ہوئی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دہشت گردوں کے کی وجہ سے کا کہنا رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔