کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا معروف اداکارہ انتقال کر گئیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
بیلجیئن سینما کی معروف اداکارہ ایمیلی ڈیکین 43 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ایمیلی ڈیکین، جنہوں نے 1999 میں کانز فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا تھا، ایڈرینل گلینڈ کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا تھیں۔
ایمیلی ڈیکین نے اکتوبر 2023 میں اس بیماری کا انکشاف کیا تھا، جس میں ایڈرینل گلینڈز یعنی گردوں کے اوپر واقع غدود میں کینسر کے خلیات پھیل جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم میں ہارمونل عدم توازن اور دیگر پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
ایمیلی 29 اگست 1981 کو بیلجیئم میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بیلجیئم کے میوزک اینڈ اسپوکن ورڈ اکیڈمی سے حاصل کی۔12 سال کی عمر میں تھیٹر میں اداکاری کا آغاز کرنے والی ایمیلی نے 17 سال کی عمر میں اپنی پہلی فلم روزیٹا (Rosetta) میں مرکزی کردار ادا کیا، جس کے بعد انہیں کانز فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا۔
ان کی یہ کامیابی نہ صرف ان کے کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی بلکہ ان کی اداکاری کے معیار کو بھی عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ایمیلی نے اپنی زندگی کے دوران متعدد فلموں میں شاندار اداکاری کی اور بیلجیئن سینما میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔
ان کی وفات سینما کی دنیا کے لیے ایک بہت بڑی نقصان ہے، اور ان کے مداح اور فلم انڈسٹری ان کی کمی شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ان کے انتقال کی خبر پر دنیا بھر میں شائقین اور اداکاروں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے، اور ان کی بے مثال اداکاری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پی آئی ڈی: ایک موذی بیماری!
(pelvic Inflammatory Disease)
ڈاکٹر صاحب مجھے گندا پانی آتا ہے، بہت تنگ ہوں۔
یہ جملہ گوکہ نامکمل ہے کیوں کہ سیاق و سباق کے بغیر ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی بولا جاتا ہے، کہنے والی اور سننے والی دونوں سمجھ جاتی ہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں؟
حالانکہ آپ دیکھیے کہ یہ بات نہیں بتائی گئی کہ گندا پانی کہاں سے آتا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟
خواتین کی گندے پانی سے مراد vaginal discharge ہے جسے عرف عام میں لیکوریا بھی کہا جاتا ہے لیکن ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ نارمل لیکوریا گندا پانی نہیں ہوتا۔
ابھی تک ہم نے بیمار ویجائنا کی بات کی جسے ویجینائٹس کہتے ہیں، لیکن ویجائنا کی انفیکشن اگر بچے دانی سے ہوتے ہوئے ٹیوبز اور اووریز تک پہنچ جائے تو اسے پی آئی ڈی کہتے ہیں جو ہمارا آج کا موضوع ہے۔
بہت سے ڈاکٹر ویجینائٹس اور پی آئی ڈی کی تشخیص کو آپس میں کنفیوژ کردیتے ہیں اور ویجینائٹس کو پی آئی ڈی سمجھتے اور کہتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور غلطی بھی بہت عام ہے جس میں ویجائنا میں موجود ان بیکٹیریا کا علاج کیا جاتا ہے جو پاخانے کے راستے خارج ہونے کے بعد ویجائنا میں داخل ہو جاتے ہیں، ان بیکٹیریاز کو ختم کرنے کی مدافعت ویجائنا کے پاس قدرتی طور پہ اس کی تیزابیت میں موجود ہوتی ہے، اس کے علاوہ ویجائنا کے سیلز سے جو پانی نکلتا ہے، اس میں کچھ ایسے ہمدرد بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو ویجائنا کی قدرتی مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔
مشکل تب پیش آتی ہے جب ویجائنا کی مدافعت میں کمی آ جائے اور پاخانے سے نکلنے والے بیکٹیریا ویجائنا میں ڈیرہ ڈال لیں، ایسے مواقع پر کئی ڈاکٹرز ان بیکٹیریاز کو ختم کرنے کے لیے انجیکشن لگاتے ہیں جو کہ صحیح نہیں، اس لیے کہ بنیادی وجہ ویجائنا کی کمزور مدافعت ہے بیکٹریا نہیں، اگر ہم مدافعت پہ توجہ نہیں کریں گے تو وجہ وہیں کی وہیں رہے گی اور اینٹی بائیوٹک انجیکشن عارضی طور پر بیکٹیریا پہ قابو پائیں گے۔ انجیکشن ختم ہونے کے بعد یہ بیکٹیریا پھر سے ویجائنا پہ قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں گے، سو اصل علاج ویجائنا کی مدافعت بڑھانے، اس کی تیزابیت قائم رکھنے اور ہمدرد بیکٹیریا کی تعداد زیادہ کرنے سے ہونا چاہیے اور اس کام کے لیے فلیجل اور کلنڈامائیسن کریم مجرب ہیں۔
ہم پی آئی ڈی کی بات کررہے تھے سو یاد رکھیے کہ اس کی تشخیص تب کی جاتی ہے جب انفیکشن ویجائنا سے ہوتی ہوئی بچے دانی، اووریز، ٹیوبز سے ہوتی ہوئی پیلوس تک پہنچ جائے۔
اب جان لیں کہ پیلوس کیا ہے؟ پیلوس pelvis پیٹ کا نچلا حصہ ہے جو چاروں طرف سے کولہے کی ہڈی سے گھرا ہوتا ہے اور اس میں مثانہ، بچے دانی، اووریز، ٹیوبز بڑی آنت کا آخری حصہ اور مقعد پائے جاتے ہیں۔
اگر انفیکشن ان اعضا تک پہنچ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انفیکشن پیٹ کے اندر داخل ہو چکی اور اب یہ سیریس مسئلہ ہے، ایسی مریضہ جب ایمرجنسی میں آئے گی تو اسے ہائی گریڈ بخار ہوگا، پیٹ میں شدید درد ہوگا اور لیبارٹری ٹیسٹ میں خون کے سفید خلیے بہت زیادہ ہوں گے۔
اگر انفیکشن بہت زیادہ ہو چکی ہو تو ہو سکتا ہے کہ پیلوس میں پیپ سے بھری تھیلیاں بھی موجود ہوں جو الٹرا ساؤنڈ پہ دیکھی جا سکتی ہیں، پی آئی ڈی والی مریضہ کو اسپتال میں داخل کروانا اشد ضروری ہے تاکہ اس کو اینٹی بائیوٹکس انجیکشن دیے جا سکیں۔
پی آئی ڈی کا علاج ہو بھی جائے تب بھی اس کی پیچیدگیوں کے اثرات زیادہ تر مریضوں میں موجود رہتے ہیں۔ پی آئی ڈی کی سب سے بڑی پیچیدگی ٹیوبز میں انفیکشن ہونا ہے اور اس وجہ سے ٹیوبز مستقل طور پہ خراب ہوجاتی ہیں جنہیں ہم blocked tubes کہتے ہیں۔ اگر مکمل طور پہ بلاک نہ بھی ہوں تب بھی ان کی اندرونی دیوار میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ پھر سپرم اور انڈے کا ملاپ ناممکن ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انڈے اور سپرم کا ملاپ انہی ٹیوبز میں ہوتا ہے اور یہیں بچہ بنتا ہے جو بعد میں بچے دانی میں پہنچ کر وہاں کا مکین بنتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اگر ایک بار ٹیوبز بند ہو جائیں یا اندرونی دیوار زخمی ہو جائے تو اس کا نہ کوئی حل ہے اور نہ ہی کوئی علاج، قدرت کے بنائے ہوئے نازک عضو میں خرابی ہوگئی تو ہوگئی۔
ایسی صورت حال میں اگر حمل چاہیے ہو تو اس کا حل آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بچہ ہے، لیکن یاد رکھیے کہ اس کی کامیابی کا تناسب 30 سے 40 فیصد ہے یعنی اگر 100 لوگ ٹیسٹ ٹیوب بچہ کروائیں تو صرف 30 سے 40 جوڑے کامیاب ہوں گے۔
پی آئی ڈی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ جنسی تعلق کی وجہ سے ہونے والی انفیکشن ہے جسے sexually transmitted diseases (STD) کہتے ہیں۔
خواتین وحضرات میں یہ بیماریاں ان لوگوں کے ذریعے پہنچتی اور پھیلتی ہیں جن کا جنسی تعلق محض ان کی بیوی یا شوہر تک محدود نہیں ہوتا، یوں بیکٹیریا ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک پہنچ کر اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔
عورت کی اپنے جسم سے لاعلمی اسے عذاب میں مبتلا کرتی ہے اور زیادہ تر اس عذاب کی وجہ بننے والا کوئی اور ہوتا ہے۔
خواتین و حضرات، معلومات طاقت ہیں اور طاقتور زندگی بہتر طریقے سے گزار سکتا ہے۔ پڑھیے، سیکھیے اور اپنی حفاظت کیجیے۔
اگلی بار STD کے ساتھ!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں