یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا، رولز کی بات کررہے ہیں،جسٹس مندوخیل کا وکیل سے مکالمہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
سپریم کورٹ میں اسٹون کریشنگ کیس میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو رولز کی منظوری کیلئے ایک ماہ کا وقت دیدیا جب کہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہم نے لوگوں کے روزگار اور ماحولیات کو بھی مدنظر رکھنا ہے،یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا آپ رولز کی بات کرہے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے مختلف مقدما ت پر سماعت کی، آئینی بنچ نے اسٹون کرشنگ پلانٹس کیخلا ف کیس پر سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ شاہ نے بتایا خیبرپختونخوا میں کل نو سو تین کرشنگ پلانٹس ہیں، 544 فعال ہیں جبکہ 230 زیر تعمیر کرشنگ پلانٹس ہیں، 37 سٹون کرشرز کو شوکاز نوٹس 210 کو قوائد کی خلاف ورزی پر سیل کیا گیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا اسٹون کرشرز کے قیام کا قانون کیا ہے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا قانون تھا کہ آبادیوں کے ایک کلومیٹر کی حدود میں کرشرز قائم نہیں ہوسکتے، کریشرز کے حوالے سے اب نیا قانون آچکا ہے، شہری علاقوں میں 500 کی حدود تک کرشرز قائم نہیں ہوسکتے، دیہاتی علاقوں میں 300 میٹر کی حدود میں کرشرز قائم نہیں ہوسکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم نے لوگوں کے روزگار اور ماحولیات کو بھی مدنظر رکھنا ہے، ممبر کمیشن وقار زکریا نے بتایا اسٹون کرشرز والے علاقوں میں ہوا کا رخ آبادی کی طرف ہو جائے تو فاصلے کا اصول بے معنی ہوجاتا ہے، دھول کے ذرّات کی آبادیوں تک روم تھام کیلئے آبپاشی کے نظام کے ساتھ درخت بھی لگائے جائیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا اسٹون کرشرز کیلئے رولز بن جائیں گے تو اس پر عملدرآمد ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا آپ رولز کی بات کرہے ہیں، وکیل کے پی حکومت نے کہا ہمیں رولز کی منظوری کیلئے تین ماہ کا وقت چاہئے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کیا اتنے وقت کیلئے لوگ مرتے رہیں گے؟ ۔اسٹون کرشرز کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا ہم نے 11 جولائی کے سپریم کورٹ کے حکمنامے کیخلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، اب 26ویں ترمیم کے بعد عدالت مانگی گئی استدعا سے باہر نکل کر فیصلہ نہیں دے سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا استدعا سے باہر نکل کر فیصلہ نہ کرنے کا اطلاق ماضی سے ہوگا یا 26ویں ترمیم کے بعد سے؟۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا پھر آپ کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ کسی قانون کے درست اور غلط ہونے کا جائزہ لینے کیلئے عدالت کس حد جاسکتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا یہ کیس صرف اس حد تک تھا کہ اسٹون کرشرز کا آبادیوں سے فاضلہ کتنا ہوگا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا رولز طے ہونے دیں، ہوسکتا ہے اپ کی نظر ثانی درخواست خود بخود غیر موثر ہوجائے۔
عدالتی حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ کے پی حکومت کی جانب سے ایک ماہ کا وقت مانگا گیا، عدالت سے استدعا کی گئی کہ قوائد کی قومی ماحولیاتی قونسل سے منظوری کیلئے ایک ماہ کا وقت چاہئے۔
عدالت وقت فراہم کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کرتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے اسٹون کرشرز ماہ کا وقت ایک ماہ رولز کی نے کہا
پڑھیں:
10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ، عمران خان کے وکیل کی وزیرِ اعظم شہباز شریف پر جرح
—فائل فوٹوبانئ پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف 10 ارب روپے ہرجانے کے دعوے کی سماعت کے دوران شہباز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے جن پر بانئ پی ٹی آئی کے وکیل نے جرح کی۔
ایڈیشنل سیشن جج یلماز غنی نے ہرجانے کے دعوے پر سماعت کی۔
شہباز شریف نے جرح سے پہلے حلف لیا اور کہا کہ جو کہوں گا سچ کہوں، غلط بیانی نہیں کروں گا، یہ درست ہے کہ دورانِ جرح اس وقت میرا وکیل میرے ساتھ بیٹھا ہے، یہ درست ہے کہ جہاں میں بیٹھا ہوں، وہاں مدعا علیہ کا وکیل نہیں ہے۔
لاہورہائی کورٹ نے بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف شہباز شریف کے ہتک عزت کے دعوے کے کیس پر سماعت کرنے والے جج کے دائرہ اختیار سے متعلق تمام درخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم دے دیا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ صدرِ مملکت کو منظوری کے لیے بھجوانے سے پہلے تمام قوانین اور رولز کا کابینہ جائزہ لیتی ہے، میں نے بانئ پی ٹی آئی کے خلاف ہرجانے کے دعوے پر خود دستخط کیے۔
انہوں نے کہا کہ یاد نہیں کہ دعویٰ دائر کرنے سے پہلے ہتک عزت کا قانون پڑھا تھا کہ نہیں، دعوے کی تصدیق کے لیے اسٹام پیپر میرے وکیل کے ایجنٹ کے ذریعے خریدا گیا، دعوے کی تصدیق کے لیے اوتھ کمشنر خود میرے پاس آیا تھا، اوتھ کمشنر کا نام، تصدیق کا دن اور وقت یاد نہیں لیکن وہ خود ماڈل ٹاؤن آیا تھا۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ بانئ پی ٹی آئی نے آج تک میرے آمنے سامنے یہ الزام نہیں لگایا، یہ درست ہے میں نے دعویٰ ڈسٹرکٹ جج کے روبرو دائر کیا ہے، ڈسٹرکٹ کورٹ میں نہیں، دعوے میں میڈیا ادارے، ملازم، افسر کو فریق نہیں بنایا۔
وزیرِ اعظم نے کہ کہ بانئ پی ٹی آئی نے تمام الزام 2 ٹی وی چینلز کے پروگرام پر لگائے، مجھے علم نہیں کہ دونوں نیوز چینلز کے یہ ٹی وی پروگرام کس شہر سے نشر ہوئے، دعویٰ دائر کرنے سے پہلے میں نے دونوں چینلز کے پروگرام کے نشر کرنے کے شہروں کی تصدیق نہیں کی۔
بانئ پی ٹی آئی کے وکیل نے شہباز شریف سے سوال کیا کیا یہ درست ہے کہ بانئ پی ٹی آئی نے آج تک آپ کے خلاف خود بیان شائع نہیں کیا۔
جس پر شہباز شریف نے کہا کہ بانئ پی ٹی آئی نے ٹی وی چینلز پر تمام الزامات خود ہی لگائے ہیں، مجھے علم نہیں دونوں چینلز کا مالک یا ملازم بانئ پی ٹی آئی نہیں۔
وکیل نے استفسار کیا کیا یہ درست ہے بطور ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت کو سماعت کا یا شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں۔
جس پر شہباز شریف کے وکیل مصطفیٰ رمدے نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا یہ قانونی نکتہ طے ہو چکا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیرِ سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے بانئ پی ٹی آئی کو کوئی آفر نہیں کی گئی۔
عدالت نے شہباز شریف سے سوال کیا کیا آپ اس نکتے کا جواب دینا چاہتے ہیں؟ جس پر شہباز شریف نے کہا یہ غلط ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کو بطور ڈسٹرکٹ جج دعوے کی سماعت یا شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں، 2017ء میں جب الزام لگا تو مسلم لیگ ن کا صدر تھا یا نہیں، یہ درست ہے کہ 2017ء میں میرا مسلم لیگ ن سے تعلق تھا، آج بھی ہے، یہ درست ہے کہ جب 2017ء میں الزام لگا تو بانئ پی ٹی آئی چیئرمین پی ٹی آئی تھے، جب سے بانئ پی ٹی آئی نے سیاست شروع کی تب سے مسلم لیگ ن کے حریف رہے ہیں۔
عدالت نے شہباز شریف پر مزید جرح آئندہ سماعت تک ملتوی کرتے ہوئے سماعت 25 اپریل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ بانئ پی ٹی آئی نے پاناما کیس واپس لینے کے لیے 10 ارب کی پیشکش کا الزام لگایا تھا جس کے خلاف شہباز شریف نے ان کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔