فیصل آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 مارچ ۔2025 )سستی بجلی اور ٹیکس میں چھوٹ اقتصادی زونز کے مکمل استعمال اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہے چھوٹے اور درمیانے درجے کے انٹرپرائز ڈویلپمنٹ کے ماہر وحید خالق نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ توانائی کی قیمت اور ٹیکسوں کا بوجھ صنعت کو مفلوج کر رہا ہے جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کاروبار کا منظر نامہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بدل رہا ہے اور صنعت کو اپنی مخصوص ضروریات کے مطابق مدد کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے منظر نامے کو محسوس کرتے ہوئے حکومت کو اقتصادی زونز میں خصوصی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ معیشت کو مضبوط کیا جا سکے اور روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے صنعتکار اور تاجر برادری تنبیہ کر رہے ہیں کہ مہنگی توانائی جدوجہد کرنے والے کاروباری شعبے کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو رہی ہے لیکن حکام اس سے آنکھیں چرا رہے ہیں کسی نے بھی ان نازک مسائل پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی اب صنعتی شعبے کو برقرار رکھنا اور ملازمتیں فراہم کرنا مشکل ہو رہا ہے.

انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل، مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی جیسی برآمدی صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ اور کم لاگت والی توانائی میں ترجیح دی جانی چاہیے انہوں نے کہا کہ ان شعبوں میں ترقی کی نمایاں صلاحیت ہے اور یہ روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں صنعت کار اعجاز احمد نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ حکومت فارماسیوٹیکل اور فوڈ پروسیسنگ جیسی صنعتوں کے لیے خصوصی زون قائم کرنے پر غور کر رہی ہے تاہم یہ نقطہ نظر ہمارے مقصد کو پورا نہیں کرے گا کیونکہ موجودہ صنعتیں خام مال، توانائی اور بھاری ٹیکسوں کی اعلی قیمت کی وجہ سے برقرار رہنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں پہلے ہمیں جدوجہد کرنے والے شعبوں کی حمایت کرنی ہوگی اور پھر ہم مستقبل کی پیشرفت کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں اکنامک زون کا ایک وسیع رقبہ غیر استعمال شدہ ہے اسی طرح کھریاں والا انڈسٹریل ایریا، ملت ٹاون انڈسٹریل ایریا اور پنجاب سمال اسٹیٹ انڈسٹریل ایریا میں سہولیات کی موجودہ حالت کو چیک کیا جاسکتا ہے ہمیں سستی توانائی فراہم کرکے اور ٹیکس میں چھوٹ دے کر ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی . پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین ہزار خان نے کہا کہ صنعت کار ترقی کے لیے برابری کے میدان اور سستی بجلی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت نے ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن سکیم کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ نٹ ویئر سیکٹر، جو سب سے زیادہ برآمدات کمانے والا ہے کو اس ادارے کا حصہ نہیں بنایا گیا.

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو قومی معیشت کو مضبوط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں انہوںنے کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ بالخصوص نٹ ویئر انڈسٹری ملک کے برآمدی اہداف اور اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے تاہم ایسے شعبوں کو نظر انداز کرنے سے ان کی شراکت کو نقصان پہنچے گا صنعت کار احمد نے تجویز پیش کی کہ حکومت ان صنعت کاروں کو مراعات فراہم کرے جو اپنے یونٹس کے لیے آن سائٹ پاور جنریشن سسٹم لگانے کے خواہاں ہیں.

انہوں نے کہا کہ سمارٹ گرڈ ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ یہ حکمت عملی ہمارے بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی کارکردگی اور وشوسنییتا کو بہتر بنائے گی انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہوا اور شمسی توانائی سے نوازا گیا ہے اور ملک کو اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہمیں صنعتی زونز کے لیے بجلی کی مخصوص لائنیں قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وسیع گرڈ سے رکاوٹوں کے خطرے کو کم کیا جا سکے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ ٹیکس میں چھوٹ ضرورت ہے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) ایرانی ریال ایک سال کے اندر اندر اپنی نصدف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔ مارچ 2024 میں ایک امریکی ڈالر چھ لاکھ ایرانی ریال کے برابر تھا۔ لیکن گزشتہ ماہ یہ شرح تبادلہ ایک ملین ریال فی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایرانی کرنسی کی قدر میں اتنی زیادہ کمی نے ملک میں مہنگائی کو مزید ہوا دی اور درآمدی اشیاء کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا۔

یہ شدید مہنگائی ایران میں کم آمدنی والے شہریوں اور متوسط طبقے پر بہت زیادہ اضافی بوجھ کی وجہ بنی ہے۔

وسطی جرمنی کے شہر ماربرگ کی یونیورسٹی کے مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے علوم کے مرکز سے منسلک ماہر اقتصادیات محمد رضا فرزانگان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''معاشی بے یقینی کی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات زندگی کے بارے میں خدشات زیادہ سامنے آ رہے ہیں اور سماجی سطح پر سیاسی اشتراک عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اقتصادی حوالے سے لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں مڈل کلاس کو کمزور کر کے حاصل یا آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟

محمد رضا فرزانگان نے حال ہی میں ایک نئی تحقیق بھی مکمل کی، جس کے لیے انہوں نے امریکہ میں برینڈیز یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم نادر حبیبی کے ساتھ مل کر کام کیا۔

انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایران کے خلاف 2012 سے عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں نے وہاں مڈل کلاس کی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ تہران کے خلاف یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور ایران کو ان پابندیوں کا سامنا آج بھی ہے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر یہ بیرونی پابندیاں نہ لگائی جاتیں، تو اس ملک کی آبادی میں متوسط طبقے کا حجم ہر سال اوسطاﹰ گیارہ فیصد کی شرح سے بڑھتا رہتا۔

پابندیوں سے فائدہ ریاست سے جڑے اداروں کو

فرزانگان کا کہنا ہے کہ ایران میں متوسط طبقے کے سکڑتے جانے سے ریاست سے وابستہ اداروں پر معاشی انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔

ایران کی کئی نجی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست سے وابستہ ادارے، خاص طور پر وہ جو پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ایسے پیداواری اور تجارتی اداروں نے اپنے لیے متبادل تجارتی نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنا لی ہے۔

اس طرح ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی نجی شعبے کے مقابلے میں ریاست کی اقتصادی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟

امریکہ کی الینوئے یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ہادی صالحی اصفہانی کے مطابق ایرانی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہیں۔ ان کے لیے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا، خاص کر ملازمتوں کی تلاش اور روزی کمانا اب بہت مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔


ایرانی لیبر مارکیٹ کے بارے میں محمد رضا فرزانگان کی تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی اور کساد بازاری کے ساتھ ساتھ کئی ثقافتی عوامل اور روایتی رول ماڈل بھی ایرانی خواتین کے لیے ملازمتوں کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ یہ روایتی سوچ بھی کہ کسی بھی خاندان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ سب عوامل مل کر خواتین کو ایرانی لیبر مارکیٹ سے باہر دھکیلتے جا رہے ہیں۔

فرزانگان کے مطابق آئندہ مہینوں میں صورتحال میں بہتری کے امکانات کم اور خرابی کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ امریکی صدر ٹرمپ تہران حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی بحالی کے لیے قومی سلامتی کے ایک ایسے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کر چکے ہیں، جس کا مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو مزید کم کرنا ہے، جو ایرانی ریاست کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔

ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے

تہران توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کی تیاری میں

ایرانی حکومت نے اس اضافی دباؤ کے باعث توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کے ذریعے ریاستی اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایرانی بزنس رپورٹر مہتاب قلی زادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے بھی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا کوئی حقیقی امکان نہیں۔

قلی زادہ کے مطابق، ''21 مارچ کو شروع ہونے والے نئے فارسی سال کے بجٹ میں حکومت نے تیل کی برآمدات کا ہدف دو ملین بیرل روزانہ رکھا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔‘‘

ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟

مہتاب قلی زادہ نے کہا کہ ایرانی بجٹ میں خسارہ بڑھنے کے امکان اور سبسڈی میں کمی کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی بڑی لہر دیکھنے میں آئے۔

حالیہ برسوں میں ایرانی عوام میں ملکی سیاسی نظام کے خلاف عدم اطمینان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے وہاں 2019 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جنہیں سختی سے دبا دیا گیا تھا۔

ماہر اقتصادیات فرزانگان کے الفاظ میں، ''لازمی نہیں کہ عوامی عدم اطمینان میں اضافہ حکومت پر منظم سیاسی دباؤ کی وجہ بھی بنے۔

اس لیے کہ جو گھرانے معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس تو سیاسی سطح پر متحرک ہونے کے لیے مالی وسال بہت ہی کم ہیں۔‘‘

امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ متوسط طبقے کو کمزور کر دینے والی بین الاقوامی پابندیاں حکومت پر خود بخود ہی مزید دباؤ کی وجہ نہیں بنیں گی۔ ''اس کے برعکس ایسی پابندیاں سیاسی طور پر سرگرم سماجی طبقات کی معاشی بنیادیں کمزور کرتی اور سیاسی نظام کی طاقت میں نسبتاﹰ اضافہ کر دیتی ہیں۔‘‘
شبنم فان ہائن (عصمت جبیں)

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • تھوڑی توانائی، بڑے امکانات، رات کے وقت بجلی بنانے والے سولر پینلز
  • تنخواہ دار اب ٹیکس سے نہیں بچ سکے گا، پنجاب حکومت نے شکنجہ تیار کرلیا
  • سپلائی چین میں خامیاں پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں. ویلتھ پاک
  • پورٹیبل اے سی کے استعمال سے بجلی کا بل کم آتا ہے؟
  • آئندہ دنوں میں بجلی مزید 7 سے 8 روپے فی یونٹ سستی ہوگی، اعظم نذیر تارڑ
  • مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے، آنے والے دنوں میں بجلی مزید سستی ہوگی، اعظم تارڑ
  • بجلی
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • بائیوڈی گریڈ ایبل پلاسٹک کی طرف تبدیلی ‘ فضلے کے مسئلے سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے.ویلتھ پاک