رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ‘ مغفرت
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اللہ تعالی نے رمضان المبارک کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے`اس مہینے میں رحمت‘ مغفرت اور جہنم سے آزادی کو مسلمانوں کے لئے عام کر دیا جاتا ہے اور جو لوگ نیک کام کرتے ہیں وہ فائدے میں رہتے ہیں اور برائی کرنے والے اور دور ہو جاتے ہیں۔
رمضان کا دوسرا عشرہ آپﷺ نے فرمایا مغفرت ہے‘ یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش عام ہو جاتی ہے اور جو لوگ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں اور اپنے گناہوں پر نادم ہوتے ہیں‘ اللہ ان کی مغفرت کر دیتا ہے اور توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے اور اس مبارک مہینے میں تو ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور جو اس مہینے میں بھی مغفرت سے محروم رہ جائے تو بدنصیبی نہیں ہے تو کیا ہے۔آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جائو ‘ حضرت کعب فرماتے ہیں ہم لوگ حاضر ہوگئے جب آپﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین‘ جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین‘ جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین‘ جب آپﷺ خطبے سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے (منبر پر چڑھتے وقت) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے(جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی میں نے کہا آمین‘ پھر جب میں نے دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپﷺ کا ذکر ہوا اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا آمین‘ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں میں نے کہا آمین۔
اس حدیث میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تین بددعائیں کی ہیں اور آپﷺ نے ان تینوں پر آمین فرمائی اور پہلا وہ شخص ہے جو رمضان المبار ک کے مہینے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے اور رمضان کا مہینہ ضائع کر دے اور توبہ نہ کرسکے اور نہ تلاوت تراویح پڑھ سکے تو اس سے بڑا محروم کون ہوگا‘توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
حضرت ابولیلث سرفندی نے تنیبہ الفافلین میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ پانچ باتوں کی وجہ سے قبول ہوئی اور شیطان کی توبہ پانچ باتوں کی وجہ سے رد کر دی گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کے اسباب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اقرار کیا‘ ‘اس پر شرمندہ ہوئے‘ جلدی سے توبہ کی طرف متوجہ ہوئے‘ اپنے نفس کو ملامت کیا‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے اور شیطان کی توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب‘ اپنے گناہ کا اقرار نہ کیا‘ اپنے فعل پر شرمندہ نہ ہوا‘نفس کی ملامت نہ کی (تکبر مانع رہا) ‘ توبہ کرنے میں جلدی نہ کی(بلکہ اللہ کے مقابلے میں اکڑتا رہا)‘اللہ کی رحمت سے مایوس ہوگیا۔
میرے بھائیو!رمضان المبارک کا مقدس مہینہ کہیں چینل دیکھنے میں نہ گزر جائے’ تلاوت ‘توبہ‘ذکر اذکار ‘مراقبہ اس میں وقت لگانے کی کوشش کیجئے رمضان کا دوسرا عشرہ گزر رہا ہے اور یہ خصوصی مغفرت کا عشرہ ہے‘کہیں ایسا نہ ہو کہ مغفرت سے محروم رہ جائیں‘ اللہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو توبہ کرنے کی توفیق نصب فرمائیں۔
روزے کی تعریف‘ شریعت میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے’ پینے اور جماع وغیرہ سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔روزہ کا مقصد‘ روزہ کا مقصد انسان کے نفس کی اصلاح ہے قرآن کریم میں روزہ کے تین مقاصد بیان کئے گئے ہیںتاکہ تم پرہیز گار ہو جائو‘تاکہ تم شکر ادا کرو‘ تاکہ وہ (روزہ دار) نیک راستہ پر لگ جائیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ ’’ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکو ٰۃ روزہ ہے‘‘ (ابن ماجہ) فرمان نبویﷺ ہے کہ ’’اگر لوگوں کو روزہ (رمضان) کے ثواب کی حقیقت معلوم ہو جائے تو یہ تمنا کرنے لگیں کہ سارا سال رمضان ہی ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’ساری عبادتوں کا دروازہ روزہ ہے‘‘ روزہ کی وجہ سے قلب منور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عبادت کی رغبت پیدا ہوتی ہے مگر یہ تب ہے کہ روزہ بھی روزہ ہو۔روزہ دار کو اللہ تعالیٰ ہر دن ایک ایسا وقت عطا فرماتا ہے جس میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں اور یہ وقت افطار کا ہے‘ اللہ کے دربار میں اس وقت کی کیفیت خصوصی مقبولیت رکھتی ہے۔ عین اس لمحے جب روزہ افطار کیا جاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی دعائیں منقول ہیں۔ رمضان المبارک کی آخری رات میں دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ دوزخ سے اتنے آدمیوں کو نجات عطا فرماتا ہے جتنا کہ پورے رمضان میں عطا فرماتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اختتام رمضان پر تمام شہروں میں ایک مراسلہ روانہ فرماتے جس میں لوگوں کو استغفار اور صدقہ فطر کی تاکید کی جاتی کیونکہ صدقہ فطر روزہ دار سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے اور استغفار، روزہ میں واقع ہونے والی کمیوں کے ازالہ کا سبب ہے اور ساتھ یہ تلقین کرتے، لوگو تم بھی اپنے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کی طرح اپنے رب کے حضور ان کلمات سے معافی مانگو۔ ربنا ظلمنا انفسنا و اِن لم تغفِرلنا و ترحمنا لنکونن مِن الخاسِرِین(الاعراف۳۲) ترجمہ : اے ہمارے رب ہم نے اپنی ذاتوں پر ظلم کیا اور اب اگر آپ معاف و رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم گھاٹے والے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت آدم علیہ السلام رمضان المبارک قدم رکھا تو اللہ تعالی توبہ کرنے مہینے میں کی وجہ سے جاتا ہے ہیں اور کی توبہ ہے اور وہ شخص نے کہا
پڑھیں:
یہودیوں کا انجام
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔