اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مارچ 2025ء) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فری لانس امریکی پوڈ کاسٹر لیکس فریڈمین کے ساتھ گزشتہ دنوں ایک پوڈ کاسٹ میں متعدد امور بشمول پاکستان، چین، گجرات فسادات وغیرہ پر سوالات کے جواب دیے۔ کئی گھنٹے پر مشتمل اس پوڈ کاسٹ کے منتخب اقتباسات بھارتی میڈیا میں گشت کررہے ہیں۔ بھارت کے متعدد اخبارات اور نیوز ویب سائٹس نے بھی اسے شائع کیا ہے۔

بھارت، پاکستان ماضی کو دفن کرکے مستقبل کے بارے میں سوچیں، نواز شریف

وزیر اعظم مودی نے ایک سوال کے جواب میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے بھارت کے خلاف مبینہ طور پراکسی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

مودی نے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان پر تنقید کی اور کہا کہ امن کو فروغ دینے کی نئی دہلی کی کوششوں کا پاکستان نے مبینہ طور پر ہمیشہ دشمنی اور دھوکہ دہی سے جواب دیا۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم مودی سے جب پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور دوستی اور امن کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، "انہوں(پاکستان) نے ایک ہم آہنگ بقائے باہمی کو فروغ نہ دینے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ بار بار دشمنی کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہمارے خلاف پراکسی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔"

مودی نے یاد دلایا کہ انہوں نے اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو 2014 میں ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا تاکہ بھارت اور پاکستان کے ہنگامہ خیز تعلقات میں "نئے باب کا آغاز" ہو سکے۔

پاکستان کا بھارتی وزیراعظم کے ’جارحانہ‘ بیان پر سخت رد عمل

انہوں نے کہا، "جب میں نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو اپنی حلف برداری میں مدعو کیا تو یہ خیر سگالی کا اشارہ تھا۔ ایسا کئی دہائیوں میں پہلی بار ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی پیش رفت تھی۔" بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعہ کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔

مودی کے بقول "تاہم ہر اچھی کوشش کا نتیجہ منفی نکلا۔" 'پاکستان کے لوگ بھی امن کو ترس رہے ہیں'

نواز شریف سے ان کی 66 ویں سالگرہ پر ملاقات کے لیے 2015 کے اپنے غیر معمولی دورہ لاہور کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی نے کہا کہ انہوں نے امن کی تلاش میں وہاں کا سفر کیا، لیکن اس کا بھی کوئی مطلوبہ نتیجہ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا، "یہ دورہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کتنی واضح اور پراعتماد ہو گئی ہے۔

اس سے دنیا کو امن اور ہم آہنگی کے لیے بھارت کے عزم کے بارے میں ایک واضح پیغام بھیجا گیا۔"

بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگ امن و سکون کے لیے ترس رہے ہیں کیونکہ "وہ لڑائی اور بدامنی میں رہتے رہتے تھک چکے ہوں گے"۔ انہوں نے سوال کیا کہ مبینہ طور پر خون ریزی اور دہشت گردی ایکسپورٹ کرکے آخر کس نظریئے کو پروان چڑھایا جارہا ہے؟

انہوں نے کہا، "وہ (پاکستانی عوام) مسلسل دہشت گردی سے تنگ آچکے ہوں گے، جہاں معصوم بچے بھی مارے جاتے ہیں اور لاتعداد زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔

" 'دہشت گردی کے تار پاکستان سے ہی کیوں ملتے ہیں؟'

ایک سوال کے جواب میں مودی نے کہا کہ بھارت نے پاکستان سے بارہا کہا ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والی مبینہ دہشت گردی بند کرے کیونکہ کوئی بھی بات چیت تشدد، دہشت گردی اور جبر سے پاک ماحول میں ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم کے مطابق پاکستان مبینہ طور پر آج نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لیے پریشانی کا مرکز بن گیا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی مثال دی، جنہیں پاکستان کے ایبٹ آباد میں ایک کمپاؤنڈ میں امریکی سکیورٹی اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

مودی نے کہا، "مثال کے طور پر 11 ستمبر کے حملوں کو لے لیں۔ اس کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن تھے۔ وہ آخر کار کہاں پائے گئے؟ انہوں نے پاکستان میں پناہ لے رکھی تھی۔

دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ، ایک طرح سے ، دہشت گردی اور دہشت گردانہ ذہنیت کی جڑیں پاکستان میں گہرائی سے پیوست ہیں۔"

انہوں نے کہنا تھا، "صرف ہم اس لعنت کا واحد شکار نہیں ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے، اس کا سرا کسی نہ کسی طرح پاکستان کی طرف جاتا ہے۔ ہم نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی کرنا چھوڑ دیں۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا بھارتی وزیر پاکستان کے بھارت کے کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ، حیدرآباد میں بتی گُل احتجاج کا اعلان
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی