امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سمیت درجنوں ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے اور اس کے لیے 41 ممالک کی فہرست ترتیب دی گئی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کو ملنے والی انٹرل میمو کے مطابق 41 ممالک کو 3 الگ الگ گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تاہم یہ میمو ابھی باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا پاکستان سمیت 41 ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرسکتا ہے، رپورٹ

روئٹرز کے مطابق پاکستان میمو میں ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اگر سیکیورٹی امور بہتر نہ کیے تو انہیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ان پابندیوں سے ظاہر ہے کہ تجارت اور دیگر امور پر گہرا اثر پڑے گا۔ مگر اس کے ساتھ پاکستانی طلبا بھئ شدید متاثر ہوں گے۔

وی نیوز نے چند ایسے طلبا سے بات کی جو یا تو اس وقت امریکا میں موجود ہیں یا پھر امریکا جانے کی تیاری کررہے تھے، ان طلبا سے بات چیت کے دوران یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آخر امریکا کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلی کے پیش نظر وہ کس طرح سے متاثر ہورہے ہیں؟

امریکا میں مقیم ایک پاکستانی جو وہاں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ امریکا میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے طلبا کو بہت زیادہ ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’چونکہ زیادہ تر وظائف وفاقی گرانٹ پر ہیں اور اس وقت عارضی طور پر گرانٹس کو فریز کیا جا چکا ہے، جس سے شاید تعلیم جاری رکھنے میں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: یو اے ای ویزا: جنوری 2025 میں پاکستانیوں کو خوشخبری ملنے کا امکان ہے؟

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو مسئلہ سب سے زیادہ آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستانی طلبا کے وظائف کو عارضی طور پر معطل کرنا ہے،جس کی وجہ سے طلبا کو پریشانی کا سامنا ہے۔ حتی کہ انٹرنیشنل ایڈوائزرز جو طلبا کے مسائل کو ڈیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان بڑی آرگنائزیشن کے بھی بہت سے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ یا پھر عارضی طور پر ان کے کانٹریکٹس کو روک دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی ایجوکیشنل ایجنسیاں غیر فعال ہو چکی ہیں۔ اور وہ طلبا کی مدد نہیں کر پائیں گی۔ جس کی وجہ سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ کیونکہ طلبا کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ انہیں آنے والے مہینوں میں وظیفہ ملے گا بھی یا نہیں۔

ان کہا کہنا تھا کہ اسکالرشپس کا کیا اسٹیٹس رہے گا۔ برقرار رہے گا بھی یا نہیں۔ اس سب کے دوران یونیورسٹیاں انہیں کوئی سہولت فراہم کریں گی بھی یا نہیں، یہ تمام سوالات ہر طالب علم کے ذہن میں اس وقت شدید انزائٹی پیدا کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کی طرح امریکا میں بھی پاکستانی طلبا کے لیے رہائشی کرایہ بہت زیاد ہوتا ہے، دیگر اخراجات بھی ضروری ہیں۔ اس لیے بغیر وظیفے کے یہاں پر رہنا سب کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ یے کہ اگر یونیورسٹی بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کر رہی اور جو ڈونر ایجنسی ہے وہ بھی آپ کو اپنا نہیں رہے تو اس صورتحال میں طلبا وہاں اس اسٹیٹس کے ساتھ کتنے ٹائم تک برقرار رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانیوں کے لیے خطرہ، جلد امریکا میں داخلے پر پابندی کے خدشات بڑھ گئے

’یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ہر سال رنیوول ہوتا ہے اور ہر سال ڈاکومنٹیشن کی ضرورت پڑتی ہے، اس ساری صورتحال نے طلبا کو شدید پریشان کن صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ ان میں اب اپنے مستقبل کے حوالے سے شک و شبہات پیدا ہوچکے ہیں۔

مریم سعید کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ انہوں نے حال ہی میں امریکا کی ایک یونیورسٹی کا جزوی طور پر وظیفہ حاصل کیا تھا۔ مریم نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ڈاکومنٹیشن تو ہو چکی یے اور وہ بہت پیسے بھی لگا چکی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے امریکا میں بہت سی چیزوں کے حوالے سے انتظامات کرلیے تھے۔ چونکہ یونیورسٹی انہیں سپلائیزیشن کے لیے فنڈز فراہم کر رہی تھی۔ تو انہوں نے اپنے پہلے سمسٹر کی فیس حال ہی میں جمع کروائی یے۔

’ امریکا کی جانب سے یہ جو پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، دوسرا پاکستانی اسٹوڈنٹس کی گرانٹس کو بھی عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس ساری صورتحال نے مجھے شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ کیونکہ میں تو فیس بھی جمع کروا چکی ہوں اور اب اگر میرا ویزہ نہیں لگ پایا تو میرا بہت زیادہ نقصان ہوجائے گا۔‘

محمد عامر حال ہی میں ان خوش نصیب طلبا کی فہرست میں شامل ہوئے تھے۔ جنہوں نے پی ایچ ڈی ریسرچ کے لیے ایک پروفیسر کو متاثر کر لیا تھا اور پروفیسر کی جانب سے انہیں امریکا آنے کی دعوت بھی دے دی گئی تھی۔

عامر کہتے ہیں کہ تمام دستاویزات مکمل ہوچکی تھیں اور کچھ وقت تک انہیں امریکا چلے جانا تھا۔ لیکن اچانک سے اس تمام صورتحال کے بعد یونیورسٹی پروفیسر کی جانب سے انکار کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردیں

’جوں ہی فیڈرل کارڈ بند ہوا تو پروفیسر کی جانب سے یہ ای میل آگئی کہ وہ معذرت کے ساتھ ابھی مجھے نہیں بلا سکتے، کیونکہ یو ایس گورنمنٹ نے گرانٹس کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے اور اگر صورتحال میں بہتری آتی ہے اور گرانٹس دوبارہ بحال ہوتی ہیں تو وہ مجھ سے خود رابطہ کر لیں گے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تو یہاں سے اپنی اچھی جاب سے بھی استعفے دے چکے تھے اور اپنی حتمی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ’اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اتنی جلدی استعفی نہ دیتا، اس ساری صورتحال نے مجھے مالی اور ذہنی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔‘

ٹریول ایجنٹ فرہاد یوسف کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے جو پابندیاں کے باعث لوگوں میں تشویشناک صورتحال پیدا ہوچکی یے۔ خاص طور پر وہ طلبا جنہوں نے یونیائیٹڈ اسٹیٹس میڈیکل لائسنسنگ کا امتحان دے رکھا یے، اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست آئی ٹی کے طلبا اور ماہرین کی بھی ہے جو امریکا میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔

امریکا کی جانب سے تو حتی کہ یہ بھی کہہ دیا گیا ہے۔ کہ گرین کارڈ ہولڈرز بھی امریکا میں نہیں رہ سکتے، کیونکہ گرین کارڈ بھی کوئی لائسنس نہیں ہے کہ وہ امریکا میں رہ سکتا ہو۔ امریکا کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ افراد جن کے معاہدے جاری ہیں، معاہدے ختم ہونے کے بعد انہیں بھی کینسل کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی امریکا میں پیدا ہورہا ہے تو بھی یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ اس کو لازمی امریکی شہریت بھی مل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے 500 امریکی شخصیات کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ طلبا جو پاکستان سے امریکا جانا چاہ رہے ہیں یا پھر امریکا میں ان کا داخلہ ہو چکا ہے، ان کے لیے ویزہ جیسے مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ امریکا کی جانب سے سیکیورٹی حالات کو بہتر بنانے کا کہا گیا ہے اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال ابھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا کے ویزہ میں بہت تاخیر ہو سکتی ہے یا پھر ویزہ مکمل طور پر مسترد ہونے کے بھی خطرات ہیں۔

’دوسرا وہاں موجود طلبا مینیج نہیں ہو پارہے،اس لیے یہاں سے جانے والے طلبا کے لیے حالات زیادہ خراب ہیں۔ لیکن امید ہے کہ پاکستان اپنے سیکیورٹی حالات کو بہتر کر لے گا اور امریکا کی جانب سے سفری پابندیوں سے بچ جائے گا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا پاکستانی طلبا صدر ڈونلڈ ٹرمپ میڈیکل ویزے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا پاکستانی طلبا صدر ڈونلڈ ٹرمپ میڈیکل ویزے امریکا کی جانب سے پاکستانی طلبا جس کی وجہ سے امریکا میں انہوں نے رہے ہیں طلبا کے طلبا کو نہیں ہے پیدا ہو جائے گا دیا گیا کر دیا کے لیے ہے اور گیا ہے

پڑھیں:

پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟

ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟

متعلقہ مضامین

  • متنازعہ کینال منصوبے کیخلاف دھرنے، پنجاب اور سندھ میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ
  • ’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟
  • پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بند ہوئے، اصل سبب کیا بنا؟
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • امریکا میں پابندی کے خدشات کے بعد پاکستانی طلبہ کے لیے کن ممالک میں بہترین مواقع موجود ہیں؟
  • پوپ فرانسس کی جانب سے غزہ کی افسوسناک صورتحال کی مذمت
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • امریکا و ایران کا نیو کلیئر ڈیل سے متعلق مستقبل میں معاہدہ کرنے کے اصولوں پر اتفاق