اسلام آباد (خبرنگار) جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور ملکی صورتحال پر تحریک کیلئے جے یو آئی کی مجلس عمومی کا اجلاس بلا لیا ہے۔ عید کے بعد مجلس عمومی میں تحریک چلانے کا فیصلہ کریں گے۔ موجودہ حکومت،  پارلیمان کٹھ پتلی ہیں۔ وزیر اعظم، صدر، وزیر داخلہ اہل نہیں۔ موجودہ حکمران الیکشن جیت کر نہیں آئے۔ ریاست خطرہ میں ہے۔ اپوزیشن میں ہوکر ملک کا سوچ رہے ہیں، حکومت کیوں نہیں سوچ رہی۔ وزیر اعظم افطار کیلئے دعوت دے رہے ہیں۔ ملکی مسائل کیلئے بات کیوں نہیں کرسکتے۔ پوسٹل سروسز، پی ڈبلیو ڈی سمیت اداروں سے ملازمین نکالے جا رہے ہیں۔ اگر ملازمین نااہل ہیں تو آپ کیسے اہل ہیں۔ اگر ملازمتوں سے نکالیں گے تو نوجوان کہاں جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سندھ میں ڈاکو خود سے نہیں ردعمل میں بنے۔ پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر والی قیادت میں یکسوئی نہیں۔ پی ٹی آئی سے معاملات میں تلخی کم ہوئی ہے۔ بیان بازی سے پی ٹی آئی کے ساتھ ممکنہ اتحاد میں دراڑ نہیں پڑے گی۔ میرے خلاف اگر کوئی بیان دیتا ہے تو پی ٹی آئی کو نوٹس لینا چاہیے۔ شیخ وقاص اکرم اور ان کے بڑوں سے میرا تعلق ہے۔ اس پارلیمنٹ میں شیخ وقاص اکرم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جب سے شیخ وقاص اکرم کی صورت تبدیل ہوئی ان کی گفتگو بھی تبدیل ہوگئی۔ حکومت مخالف تحریک میں پی ٹی آئی سے اتحاد پر پالیسی ساز اجلاس میں فیصلہ ہوگا۔ حکومت میں شمولیت کے لئے حکمران منتیں کرتے رہے۔ ملکی موجودہ سیاسی صورتحال میں نواز شریف اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر نواز شریف سمجھتے ہیں ایک صوبہ میں حکومت سے کام چل گیا تو ملک کہاں گیا۔ آصف زرداری انجوائے کررہے ہیں۔ آصف زرداری واحد شخص صوبائی اسمبلی اور ایوان صدر خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پنجاب ٹھنڈا ہے تو یہ کوئی بات نہیں۔ دو صوبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جب ہم نکلیں گے تو یہ کہیں گے کہ ملک کا خیال کریں۔ پاکستان نے بکرا پیش کیا، ٹرمپ خوش ہوا۔ حکومت نے عید منائی۔ حکومت ٹرمپ کو بکرا پیش کرنے کیلئے انتظار میں تھی۔ ٹرمپ کے آنے سے اپوزیشن خوش حکومت خوفزدہ تھی۔ بکرا پیش کرنے کے بعد اپوزیشن مایوس ہوئی ہے۔ بکرا پیش کرتے وقت ملکی خود مختاری نہیں دیکھی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کی جاسکتی تھی مگر خاموشی رہی۔ کل کو اپنے ناجائز اقتدار کو بچانے کیلئے ہم میں سے کسی کو بکرا بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مجھے بھجوایا گیا تھریٹ الرٹ مضحکہ خیز تھا۔ ترتیب درست نہ تھی۔ تھریٹ الرٹ میں کہا گیا کہ آپ سیاست، حکومت اور مذہبی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ تھریٹ الرٹ میں کہا گیا کہ یہ فتنہ الخوارج کی طرف سے ہے۔ فتنہ الخوارج کا ہماری سیاست، حکومت اور مذہب سے کیا تعلق ہے۔ میرے کردار سے فتنہ الخوارج کو نہیں ان کوخطرہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جان اللہ کے پاس ہے، ڈرنے والے نہیں، گھر بیٹھے بھی جان جاسکتی ہے۔ یکطرفہ فیصلے بند نہ کئے گئے تو ملکی سیاست میں شدت آئے گی۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ مسلح جتھوں اور فوج سے لوگوں کو خطرہ ہے۔ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ ملک کو چلا رہی ہے۔ ایران انڈیا کے ساتھ بات چیت ہوسکتی ہے تو یہ رویہ افغانستان کیلئے کیوں نہیں؟۔ جے یو آئی رہنمائوں پر حملے کرکے ہمیں ڈرایا جارہا ہے، ہم نہیں ڈریں گے۔ ریاست نے کہا تو افغانستان کے معاملہ پر کردار ادا کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ ہمارے حوصلے جواب دے گئے ہیں، مایوس نہیں ناراض ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چوہدری برادران کہتے ہیں امانت ہے، وہ امانت الیکشنز تاریخ تھی۔ بلوچستان میں بات چیت کرنی چاہیے۔ بلوچستان کے معاملہ پر یک طرفہ بیانیہ نہ دیکھیں۔ مائنس ون کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن نے کہا پی ٹی ا ئی بکرا پیش رہے ہیں

پڑھیں:

اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم

اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:

غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔

معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
 ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔

لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔

 اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔

قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔

سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔

صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ 
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • مولانا فضل الرحمن کا پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد کرنے سے انکار
  • وزیراعظم سے وزیرِ پیٹرولیم علی پرویز ملک کی ملاقات، سیاسی و معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ رمضان توقیر کا تحصیل پہاڑ پور کا دورہ
  • مسیحی برادری نے ہمیشہ ملکی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا، صدر مملکت کا ایسٹر پر پیغام
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
  • نامور کالم نگار و تجزیہ کار مظہر برلاس کا سیاسی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں. اسد عمر