تربیلہ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
سٹی 42 : تربیلہ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے، تربیلہ ڈیم کا موجودہ لیول 1404فٹ رہ گیا جبکہ1402فٹ ڈیڈ لیول ہے۔
تربیلہ ڈیم میں پانی کی آمد میں بھی کمی ہوگئی، ڈیم کے 9 پیداواری یونٹس بند ہونے سے 499 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔
تربیلہ ڈیم کے 17 پیداواری یونٹس میں 4 ہزار 888 میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے ، تربیلہ ڈیم کے 8 پیداواری یونٹ سے 499 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔
وزیراعظم سے (پلڈاٹ) بورڈ کے اراکین کی ملاقات
تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک کم ہورہی ہے ، ڈیم میں پانی کا آبی ذخیرہ 2 فٹ باقی رہ گیا۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح کم ہو1404 فٹ پر آگئی جبکہ ڈیم میں پانی کا ڈیڈل لیول 1402 فٹ ہے ۔
ذرائع کے مطابق تربیلہ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ختم ہونے پر پانی کی مزید آمد کے مطابق پانی کا اخراج کیا جائے گا۔
تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 14 ہزار 4 سو کیوسک جبکہ پانی کا اخراج 20 ہزار کیوسک ہے۔
نصیبو لال کی شوہر سے صلح ، مقدمہ ختم
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ڈیم میں پانی کی ڈیم میں پانی کا
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔