Express News:
2025-04-22@01:25:51 GMT

فیملی پروٹوکولز؛ کوہلی اپنے ہی بورڈ پر برس پڑے

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

اسٹار کرکٹر ویرات کوہلی نے فیملی پروٹوکولز سے متعلق بھارتی بورڈ پابندیوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کردیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی پی ایل کے آغاز سے قبل رائل چیلنجرز بنگلور کی تقریب میں شریک تھے، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ غیر ملکی دوروں کے دوران کوئی پلیئر نہیں چاہے گا کہ وہ اکیلا بیٹھے اور رنجیدہ ہو۔

انہوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کا نام لیے بغیر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا کہ ٹور کے دوران خراب پرفارمنس کے بعد آپ اکیلے بیٹھ کر رنجیدہ نہیں ہو سکتے، میں نارمل رہنا چاہتا ہوں پھر آپ اپنی گیم پر کام کرتے ہیں۔ 

مزید پڑھیں: بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں اور اہلخانہ کیلئے بُری خبر، بھارتی بورڈ کا بڑا اعلان

کوہلی کا کہنا تھا آپ کسی بھی کھلاڑی سے پوچھیں گے کہ کیا فیملی آپ کے ساتھ ہو تو جواب ہاں میں ہوگا، میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا کوئی موقع مِس نہیں کرنا چاہوں گا، ٹینشن کی صورتحال کے بعد فیملی سے آکر ملنا ضروری ہوتا ہے، میرا نہیں خیال کہ لوگوں کو اس کی سمجھ ہے۔

مزید پڑھیں: بیویوں، گرل فرینڈز کو ٹورز پر ساتھ لے جائیں، مگر کس شرط پر؟

قبل ازیں بھارتی کرکٹ بورڈ نے دورہ آسٹریلیا کے دوران بارڈر- گواسکر ٹرافی میں بدترین شکست اور نیوزی لینڈ سے ہوم گراؤنڈ پر ہار کے بعد اہلخانہ کے کھلاڑیوں کیساتھ بیرون ملک دوروں پر نئے پروٹوکولز لاگو کیے تھے۔

مزید پڑھیں: شکستوں کے باعث بھارتی کرکٹرز سے بیویوں، گرل فرینڈز کا ساتھ بھی چھن گیا

بھارتی کرکٹ بورڈ نے فیملی سے متعلق ہدایات جاری کرتے ہوئے محدود وقت کے لیے فیملیز کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر کرکٹرز ناراض ہیں۔

بھارتی بورڈ کے فیصلے کے تحت 45 روزہ دورے میں کھلاڑی فیملیز کو 14 روز سے زیادہ ساتھ نہیں رکھ سکیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔

پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔

پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔

یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط ​​طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔

پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔

اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سے منگل کو ملاقات کا دن، فیملی ممبران کی فہرست جیل انتظامیہ کو ارسال
  • جان سینا ریکارڈ 17 ویں بار ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن بن گئے
  • بھارتی کرکٹ بورڈ نے سینٹرل کانٹریکٹ کا اعلان کردیا، سب سے زیادہ پیسے کون لے رہا ہے؟
  • واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ
  • جیسن گلیسپی کا پی سی بی پر واجبات کی عدم ادائیگی کا الزام، پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف بھی آگیا
  • ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا مسائل بات چیت سے حل کرنے اور ساتھ چلنے پر اتفاق
  • سابق ہیڈکوچ تاحال اپنے واجبات کے انتظار میں!
  • خلیل الرحمٰن پاکستان سے مایوس، بھارت کیلئے کام کریں گے؟
  • ایلون مسک سے ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے.نریندرمودی
  • تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی