ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
میں گزشتہ دو دنوں سے ’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘ کے شہر اسلام آباد میں ہوں جہاں کی بحریہ یونیورسٹی میں میری بیٹی ایم ایس کر رہی ہے ،وہ اور اس کی دوست ایمان پچھلے پانچ سال سے اس شہر بے اماں میں موجود ہیں ،انہوں نے چار سال انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی میں بی ایس انگلش کے لئے گزارے میرا اور میری فاطمہ کا یہ وعدہ تھا کہ ہر مہینے میں اس سے ملنے آیا کروں گا مگر میں ایک بار بھی اپنے وعدے کے مطابق اسلام آباد نہ آسکا کہ یہاں ناگفتہ بہ حالات نے اجازت ہی نہ دی ۔میں اس بے مروت شہر کے اخبار کے ادارتی صفحہ پر ہر دوسرے دن کے سورج کے ساتھ طلوع ہوتا ،اس دوران میری بیٹی نے اپنی مادر گیتی کے حوالے سے بہت دکھ سہے، آئے دن جامعہ کی خود مختاری کے گھمنڈ میں مبتلا کوئی نہ کوئی گمبھیر مسئلہ کھڑا کردیتی ،میں لہو کے آ نسو پی کر رہ جاتا کہ سمسٹر سسٹم میں سارے نمبر ان اساتذہ کے اختیار میں ہوتے تھے اور یہ فرعونیت کے لہجے میں بات کرتی تھیں بچیوں کو بلا جواز بات بات پر پراگندہ حال کرنا ان کا روزانہ کا معمول بن گیا ہوا تھا۔
ایسے ماحول میں حساس بچیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا گھٹ گھٹ کے مرتی رہتی تھیں ،کسی وجہ سے چھٹی کی ضرورت پڑجاتی تو اساتذہ کی صورت میں کئی پہاڑ سر کرنے پڑتے اور سمسٹر کے آخر میں امتحان میں شمولیت کے لئے بچیوں کو انتہائی مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا، اکثر اوقات تو انہیں فیل کردیا جاتا، یوں انہیں پھر سے اپیئر ہونا پڑتا کریڈٹ آورز کبھی پورے ہی ہونے کو نہیں آتے تھے،کسی ایک اسائیجمنٹ پر دستخط کروانے کے لئے اساتذہ کے پیچھے کئی کئی دن جوتے رگڑنے پڑتے ، اساتذہ کے کلاس میں آنے نہ پر کوئی قد غن نہیں تھی، دوردراز شہروں سے آنے والی طالبات کو ذرا سی تاخیر پر کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ۔کوئی ڈیکورم نہیں تھا کہ جس کے تحت معمولات کو چلایا جاتا ۔ طالبات کو اپنی شکایات پہنچانے کا کوئی نظام نہیں نہ ریکٹر تک کسی کی رسائی نہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے شنوائی کی سہولت دے رکھی تھی اور حالات جوں کے توں ہیں اساتذہ اور طالبات کے درمیان ہم آہنگی کا گمان ہی مشکل اور والدین کی میل ملاقات تو ویسے ہی شجر ممنوعہ کی مثل ۔اذن گویائی کے سب دربند ہم بے چارے والدین بچیوں کے درد کے نوحے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور بچیاں اپنے دکھ چھپانے میں لگی ہوتیں کہ کہیں کوئی بات باہر نہ نکل جائے کہ نکل گئی تو ایک پہاڑ کی طرح ٹوٹ پڑے گی۔
ویسے اجتماعی سماجی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہر سمت عجیب سے حالات ہیں جو سنورنے کی جانب آہی نہیں ر ہے ایک بھونچال کی سی کیفیات میں زندگی کر رہے ہیں وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ
جہاں بھونچال بنیاد فصیل و درمیں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
یہ فقط تعلیمی ماحول کے حوالے ہی سے نہیں، سیاسی حالات میں بھی یہی افرا تفری مچی ہے۔کہیں حکومت بہتری کے لئے ہاتھ پائوں مارتی ہے تو اس کی ساری تپسیا بالا بالا صاحبان اختیار کے ہاتھوں بے ثمر ٹھہرتی ہے ، مقامی سطح تک سہولیات کے فقدان میں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔حکمرانوں کی طرف راشن کی جو سہولتیں مہیا کی گئیں وہ بھی اندھے کی بانٹ کی مثل کہ ضرب المثل ہے ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں ہی کے بیچ‘‘ ریاست کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں نہیں وہ اپنا رونا روتی ہے ۔نہ ریاست کی ریڈ نہ حکومت کی ، عام آدمی لاچار و نامراد زندگی بسر کر رہا ،حقوق و فرائض کا احوال کس سے بانٹیں سب اپنے اپنے حصے کا دشت بے اماں ناپ رہا ہے وہ احسان یوسف نے کہا تھا کہ کہیں تو آئے نظر اب وفا کا اندلس بھی چراغ پھینک سکوں کشتیاں جلا بھی سکوں حکومت کہنے کو الفاظ کے پھاہے رکھنے میں مصروف مگر سب انہیں کے لئے ہورہا ہے جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں ،پہلے تھوڑے وزیر ،مشیر تھے کہ اب نئی فوج ظفر موج پوری تیاری سے قوم پر مسلط کئے جانا کا اہتمام ہوچکا۔ نئے اخراجات کے پنڈورے بکس کھلیں گے تو مہنگائی کا دیو گلی رقص کرے گا اور وہ گھرانے جنہیں رمضان المبارک میں جتنی مٹھی آٹا دیا گیا تھا اتنے دن فاقے کاٹیں گے اور نئے وزیر مشیر ان افتاد گان خاک کے نصیبوں پر قہقہے لگائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ
پاکستان کے مختلف شہروں میں اکثر شاہراہوں پر گولڈن مین یا سلور مین نظر آتے ہیں جو کمال مہارت سے خود کو ایسے مجسمے کی صورت میں ڈھال لیتے ہیں کہ دیکھنے والے کو واقعی اصل مجسمہ محسوس ہوتا ہے۔ آج کل بڑوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی یہ روپے دھارے مختلف سڑکوں پر کھڑے ملتے ہیں۔
معروف پاکستانی گلوکار بلال مقصود نے ایسے ہی ایک بچے کی تصویر فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر شیئر کی جس کے ہاتھ، منہ پر گولڈن پینٹ کیا ہوا ہے اور محکمہ صحت کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے لکھا کہ آپ کو خیابانِ اتحاد اور سی ویو پر ایسے بے شمار بچے نظر آئیں گے جن کے چہرے سنہری یا سلور رنگ سے رنگے ہوتے ہیں، اور یہ شدید گرمی میں سڑکوں پر پرفارم کرتے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Bilal Maqsood (@bilalxmaqsood)
گلوکار نے مزید لکھا کہ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ یہ رنگ عام طور پر ایلومینیم پاؤڈر اور دیگر زہریلے کیمیکلز سے بنے ہوتے ہیں، جو بچوں کی نازک جلد کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ یہ پینٹ صحت کے لیے مضر ہیں اور ان کا مسلسل استعمال سنگین جلدی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے حتیٰ کہ اس سے جلد کا کینسر بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
بلال مقصود نے پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ کچھ نہ کچھ کرنا بہت ضروری ہے۔ ان بچوں کو تعلیم دیجیے، ان کی حفاظت کیجیے، اور اس عمل کو باقاعدہ ضابطے میں لائیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
گلوکار کی پوسٹ پر صارفین انہیں سراہتے ہوئے نظر آئے اور کہا کہ شکر ہے کہ کسی نے تو ان کے لیے آواز بلند کی۔ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ وہ مختلف شہروں اور مختلف جگہوں پر روزانہ ایسے کئی بچے دیکھتے ہیں جو جسم پر پینٹ لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلال مقصود سلور مین کراچی گولڈن مین محکمہ صحت