پی ٹی آئی راہنماؤں کی عمران خان سے ملاقات کی درخواست مسترد
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق 10 مارچ کو 8 راہنماؤں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی تھی، درخواست گزاروں نے ملاقات سے متعلق ایس او پی پر عمل نہیں کیا۔ درخواست گزار قانون کے مطابق ایس او پی پر عمل کرنے کے لیے پابند ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی راہنماؤں جنید اکبر و دیگر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست مسترد ہو گئی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی، جسٹس خادم حسین سومرو نے پی ٹی آئی راہنماؤں کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی راہنما بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے بنائے گئے میکنزم پر عمل نہیں کر رہے، جیل سپرنٹنڈنٹ نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والے 8 راہنماؤں کی فہرست پیش کی۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر گوہر، سلمان صفدر اور نیاز اللہ نیازی کے نام فہرست میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والوں میں نعیم پنجھوتھہ، شعیب شاہین، ابوذر نیازی اور عزیر بھنڈاری کا نام بھی شامل ہے۔ فیصلے کے مطابق 10 مارچ کو ان 8 راہنماؤں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی تھی، درخواست گزاروں نے ملاقات سے متعلق ایس او پی پر عمل نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کی جاتی ہے، درخواست گزار قانون کے مطابق ایس او پی پر عمل کرنے کے لیے پابند ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ایس او پی پر عمل فیصلے کے مطابق سے ملاقات کی
پڑھیں:
سپریم کورٹ، قتل کے مجرم کی دُہری سزا عمر قید برقرار
سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم رفعت حسین کی جانب سے دائر اپیل مسترد کرتے ہوئے اس کی 2 بار عمر قید کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے، جبکہ سزا بڑھانے کے لیے دائر استغاثہ کی درخواست بھی خارج کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے سزائے موت کو 2 بار عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے درست عدالتی اختیار استعمال کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی: 3خواتین کو کیسے اور کیوں قتل کیا گیا، اقبال جرم کرنے والے کون؟
عدالتی فیصلے میں بتایا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے رفعت حسین کو 2 افراد کے قتل کے جرم میں 2 بار سزائے موت سنائی تھی، تاہم لاہور ہائی کورٹ نے شواہد اور حالات کی روشنی میں سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے رفعت حسین کی اپیل خارج کر دی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور کی جانب سے تحریر کردہ 8 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ رفعت حسین مقدمے کے دوران مفرور رہا، جس کے باعث اس نے خود اپنے دفاع کا حق ضائع کیا۔ عدالت کے مطابق قانون کے تحت مفرور ملزم کا پہلے دیا گیا بیان اس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ واقعے کی ایف آئی آر فوری طور پر درج کی گئی، جس سے مشاورت یا جھوٹے الزام کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ عدالت کے مطابق عینی گواہوں نے رفعت حسین کی موقع پر موجودگی اور کردار کی تصدیق کی، جبکہ میڈیکل شواہد بھی عینی شہادت کے عین مطابق تھے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اسلحہ کی برآمدگی اور رفعت حسین کی طویل مفروری بھی استغاثہ کے مؤقف کے مطابق ثابت ہوئی، اور استغاثہ نے اپنا مقدمہ شک سے بالاتر ثابت کیا۔ عدالت نے بتایا کہ پہلی ایف آئی آر مقتولین کے والد عبدالرحمان نے درج کرائی تھی جو بعد ازاں وفات پا گئے۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق یکم اگست 2003 کو محمد اشفاق اور ضیا الحق کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ مقدمے میں بتایا گیا کہ رفعت حسین کلاشنکوف جبکہ غلام عباس 7 ایم ایم رائفل سے مسلح تھا، اور دونوں ملزمان نے للکار کر کہا کہ جو بچنا چاہتا ہے وہ حرکت نہ کرے، جس کے بعد دونوں مقتولین موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں:درختوں کے قتل پر اہل لاہور کی خاموشی
فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا محرک ٹوٹی ہوئی منگنی، پرانی رنجش اور ممکنہ شادی کا تنازعہ تھا۔ اس کیس میں شریک دیگر ملزمان پہلے ہی ٹرائل میں باعزت بری ہو چکے تھے۔ رفعت حسین اور غلام عباس دونوں مقدمے کے دوران مفرور رہے، جبکہ غلام عباس بعد ازاں ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
عدالت کے مطابق رفعت حسین کو 3 مئی 2012 کو گرفتار کیا گیا، اور اس کے خلاف استغاثہ نے 11 گواہان کے ذریعے مقدمہ پیش کیا۔ استغاثہ نے مقتولین کے والد عبدالرحمان کا وہ بیان بھی بطور شہادت پیش کیا جو پہلے عدالتی کارروائی کے دوران ریکارڈ کیا جا چکا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں