دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں لاکھوں سال کے ارتقائی سفرکی گواہ ہے۔ اس کی مٹی میں ان گنت خواب دفن ہیں، اس کے دریاؤں میں امیدوں کی جھلک ہے، اس کی فضاؤں میں لاکھوں آہوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو وقت کے سفاک ہاتھوں نے اس پر بکھیردی ہیں۔
یہ وہی زمین ہے جس نے تہذیبوں کو پروان چڑھتے دیکھا جس نے محبتوں کے گل کھلتے دیکھے جس نے علم و ہنرکے چراغ جلتے دیکھے اور اس نے جنگوں کی ہولناکیاں بھی جھیلی ہیں۔ اس نے خون میں نہائے ہوئے شہر بھی دیکھے ہیں۔ اس نے معصوم بچوں کی چیخیں بھی سنی ہیں۔ اس نے ماؤں کی آنکھوں میں بستے خوابوں کو ویران ہوتے بھی دیکھا ہے۔ یہ زمین جو زندگی کو پروان چڑھانے کے لیے بنی تھی صدیوں سے طاقت اور ہوس کے پجاریوں کے ہاتھوں مقتل بنی ہوئی ہے۔
یہ سوال آج ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ہم ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پرکھڑے ہیں؟ کیا ترقی یافتہ دنیا جو آج پہلے سے زیادہ باشعور اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی (connected) ہے پھر سے انھی غلطیوں کو دہرانے جا رہی ہے جو ماضی میں انسانیت کے لیے تباہی کا باعث بنی تھیں؟ کیا ہم پھر سے خون کی ہولی کھیلنے والے ہیں، پھر سے بستیوں کو ویران کرنے والے ہیں، پھر سے وہی آگ بھڑکانے جا رہے ہیں جو صدیوں تک جلتی رہتی ہے اور انسانوں کو راکھ میں تبدیل کردیتی ہے؟
یہ سوال کوئی جذباتی واویلا نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ہرگزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطے پہلے ہی جنگ اور بربادی کی لپیٹ میں ہیں۔ فلسطین میں معصوم بچوں کے جسموں سے خون بہتا ہے، یوکرین کی گلیاں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی ہیں۔ افغانستان کی سڑکیں خاموشی سے اپنے زخمی جسموں کے نوحے سناتی ہیں۔
افریقہ میں بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں ویرانی کے سائے لہراتے ہیں۔ اس سب کے باوجود عالمی طاقتیں آج بھی جنگی سازوسامان کے انبار لگا رہی ہیں، نئے اتحاد بن رہے ہیں، پرانے دشمنوں کوگھیرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، وسائل پر قبضے کی دوڑ میں انسانیت کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوتن کا حالیہ بیان اس عالمی منظرنامے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روس کسی کا دشمن نہیں، وہ کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا، وہ تو بس اپنی سالمیت کا دفاع کر رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا روس نے یورپ کو سستی گیس فراہم نہیں کی؟ کیا دوسری جنگ عظیم میں روس نے فاشزم کے خلاف عظیم قربانیاں نہیں دیں؟ کیا کووڈ کی وبا کے دوران مدد فراہم نہیں کی؟ یہ سوالات اپنی جگہ مگر سچ تو یہ ہے کہ عالمی سیاست کسی ایک ملک کے نیک نیتی کے دعوئوں پر نہیں بلکہ طاقت کے بے رحم اصولوں پر چلتی ہے۔ دشمنیاں صرف نظریاتی یا تاریخی وجوہات کی بنیاد پر نہیں بنتیں بلکہ جغرافیائی اور معاشی مفادات ان کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔
امریکا اور یورپی طاقتیں اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ آزما رہی ہیں جب کہ چین روس اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں اس نظام کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اس کھینچا تانی میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے، وہ عام انسان جوکسی عالمی طاقت کے ایوان میں نہیں بیٹھا جو نہ کسی جنگی منصوبے کا حصہ ہے نہ کسی سیاسی سازش کا شریکِ کار۔ وہ جو صرف اپنی زمین پر ہل چلانا چاہتا ہے، اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینا چاہتا ہے، اپنی چھت کے نیچے محفوظ سونا چاہتا ہے مگر جنگیں اس کے ہاتھ سے سب کچھ چھین لیتی ہیں۔
اگر ہم تاریخ کے صفحات پلٹیں تو ہمیں ہر جگہ جنگوں کے مہلک اثرات ہی نظر آئیں گے۔ پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری ویتنام کی جنگ ہو یا کوریا کی عراق اور افغانستان کی بربادی ہو یا مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تباہ کاریاں، ہر جنگ کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں نے اٹھایا جن کا ان تنازعات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کسان جن کی زمینیں جل گئیں، وہ مزدور جن کے کارخانے کھنڈر بن گئے، وہ مائیں جن کے بیٹے لوٹ کر نہ آئے، وہ بچے جن کے خوابوں پرگولیوں کے زخم لگے، وہ بستیاں جو کبھی دوبارہ آباد نہ ہو سکیں۔ جنگ صرف بارود اور ہتھیاروں کا کھیل نہیں، یہ نسلوں کی تباہی تہذیبوں کی بربادی اور انسانیت کی شکست کا نام ہے۔
یہ کیسی ترقی ہے کہ دنیا میں اربوں ڈالر ہتھیار بنانے پر خرچ کیے جا رہے ہیں مگر کروڑوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں؟ جو سرمایہ ایٹمی ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان پر لگایا جا رہا ہے، اگر وہ تعلیم، صحت اور انسانی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تو دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے، مگر مسئلہ یہی ہے کہ عالمی قیادت کی ترجیحات میں انسانیت کہیں بہت پیچھے چلی گئی ہے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنگوں کو روکنے کے بجائے انھیں مزید پیچیدہ بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ جنگی صنعتوں سے وابستہ کمپنیاں اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں عالمی طاقتوں کے حکمران یہ سب ایک ایسے کھیل کا حصہ ہیں جہاں امن ایک ناپسندیدہ شے بن چکا ہے۔
ہتھیار بنانے والوں کو جنگوں سے فائدہ ہوتا ہے، سیاستدانوں کو دشمنیاں زندہ رکھنے میں مفاد نظر آتا ہے۔ سامراجی قوتوں کوکمزور ممالک کی بربادی سے اپنا اقتدار مضبوط ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روزکہیں نہ کہیں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، ایک نئی جنگی سازش تیار کی جا رہی ہے، ایک نئی نسل کو برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جا رہی ہے رہے ہیں رہی ہیں رہا ہے پھر سے کے لیے
پڑھیں:
سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔
دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔
البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،
Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,
Generation Z
یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔
چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔
دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔
زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔
حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔
چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔