Express News:
2025-04-22@06:27:23 GMT

الیکٹرانک میڈیا پر شاعری اور افسانے

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

بہت دن سے یہ بازگشت سننے کو مل رہی ہے کہ سوشل میڈیا سے دلچسپی کے باعث اب علم و ادب اور شعر و سخن کے متوالے کم ہوتے جا رہے ہیں کچھ دانا و بینا نے تو اس بات کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ آیندہ بیس، پچیس برسوں میں پرنٹ میڈیا زوال کی حدوں کو چھونے لگے گا۔

کتابیں اور اخبارات و رسائل کی اشاعت محدود ہو جائے گی یا پھر بالکل ختم ہو جائے گی لیکن تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے آج بھی جونیئر و سینئر لکھاریوں کی کتب کی اشاعت باقاعدگی سے ہو رہی ہے، ہر موضوع پر کتابیں شایع ہوتی ہیں اور قاری اپنے ذوق و فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب خریدتا ہے۔

حال ہی میں حامد علی سید کا شعری مجموعہ ’’ریگزار میں دریا‘‘ اور زویا حسن کے افسانوں کا مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب ‘‘منظر عام پر آیا۔ کچھ تخلیقات نے پرنٹ میڈیا کی جگہ اپنا جلوہ دکھایا، اظہار کے ذرایع میں آج جدید کتاب کا نام ’’فیس بک‘‘ ہے گویا آپ کا چہرہ کھلی کتاب کی مانند ہے جہاں پر دل کی باتیں اور ذہانت و فطانت کے خزانے پائے جاتے ہیں۔

کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر قدغن ہو، اب بات یہ ہے کہ ہر باصلاحیت شخص اپنے مزاج اور فکر کے مطابق علم و ہنر کے دریا بہاتا ہے انھی فنکاروں میں ایک اہم ترین نام زیب اذکار حسین کا بھی جو صحافت و افسانہ نگاری اور شعر و سخن کے حوالے سے ممتاز بھی ہے اور معتبر بھی کافی طویل عرصے سے آپ شاعری کر رہے ہیں، غزلیات ان کی پسندیدہ صنف ہے ان کی غزلیں حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم پر تو سننے کو ملتی ہی ہیں جس کے وہ سیکریٹری ہیں، ہم انھیں فیس بک پر بھی پڑھتے ہیں ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ منفرد ہے لفظوں کا انتخاب قابل ستائش ہے نمونہ کلام پیش خدمت ہے، غزل مماثل سے چند اشعار:

ہمارے پاس خوشی کا جواز ہی کم ہے

تمہارے پاس شکستہ دلی کا مرہم ہے

نہ کوئی طرفہ تعلق، نہ ربطِ باہم ہے

جو دکھ اسے نہیں لاحق ہمیں وہی غم ہے

جو شعر تم نے کیا قامت غزل میں شمار

اسی کے بطن میں پوشیدہ پہلوئے دم ہے

ایک اور غزل مماثل:

دکھ کی بے چینیوں کو سر کرنا

وحشت متن سے مفر کرنا

بے خودی میں کبھی سفر کرنا

خود کو خود ہی سے در بدر کرنا

ہار دینا یوں اپنے ہونے کو

 اپنے ہونے کو یوں بسر کرنا

 دیکھیے غزل کے اشعار اور معنویت کو برتا گیا ہے خیال کی چاشنی اور معنویت کا حسن ان کی شاعری کا خاصا ہے۔

ہم اپنے وہم سے کوئی گماں بتا نہ سکے

وہ بے دھیانی تھی، کوئی دھیان بنا نہ سکے

سنا تو یہ تھا کہ دل کا جہاں بھی ہوتا ہے

تھے ایسے دل بھی کہ اپنے جہان بنا نہ سکے

ہر ایک چیز بنا لیتی ہے جگہ اپنی

وہ لوگ بھی تھے کہ اپنا مکاں بنا نہ سکے

تھی آگ ایسی کہ جنگل پہ ہو گئی تھی محیط

پرندے وہ تھے کہ پھر آشیاں بنا نہ سکے

 جناب زیب اذکار حسین ایک ایسے قلم کار ہیں جو اپنی بصیرت و بصارت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہیں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دور اذکار افسانے‘‘ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز انوکھا ہے، اسی فکر کے نتیجے میں ان کے افسانے بھی نرالے ہیں، فن افسانہ نگاری میں زیب اذکار نے بہترین تجربات کیے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں۔

اگر تنقید کے بارے میں بات کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے نقاد کے طور پر سامنے آئے ہیں جو بہت سی صلاحیتوں کے مالک اور ادب کے ہر شعبے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور ان کی ایک خوبی یہ بھی کہ ان کی گفتگو میں توازن برقرار رہتا ہے اسی وجہ سے شرکا محفل کو سیکھنے کو ملتا ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا قلم کار ہوگا جو ان سے ناراض ہو، سچی بات ہے اچھا اخلاق ہی انسان کو بڑا بناتا ہے اور پھر اس کے کام جو اس نے محنت و لگن کے ساتھ انجام دیے ہیں۔ اب آتے ہیں زویا حسن کے افسانوی مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب‘‘ کی طرف۔

ان کے افسانے پڑھ کر میں یہ رائے قائم کر سکی ہوں کہ زویا حسن ایک ایسی افسانہ نگار ہیں جنھیں اپنے فن پر عبور حاصل ہے وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں نہایت سلیقے کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچاتی ہیں، ان کی فکر کے زاویے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ زویا کے افسانوں میں معاشرتی جبر و قہر کی تصویریں جداگانہ انداز میں نظر آتی ہیں، ان کے افسانوں میں مرد کے ظلم و ستم سہنے والی مظلوم عورتوں کا ذکر ہے جوکہ جسمانی تشدد اور مارپیٹ برداشت کرتی ہیں، مرد سے نجات کے لیے راہ فرار تلاش نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی محرومیوں سے بچنے کے لیے تخیل کی دنیا میں آباد ہو جاتی ہیں اور اس وقت تک زندگی کی خوشیاں کشید کرتی ہیں جب تک ان کی نظروں اور دل کا فریب سامنے نہیں آ جاتا۔

ایسی ہی حقیقت ’’کھڑکی میں اگا وجود‘‘ میں نظر آتی ہے۔ ایک اور افسانہ ’’آسمان پر آخری دستک‘‘ نے دلخراش واقعات کو افسانے کا پیکر عطا کیا ہے۔ ’’کلاؤن اسٹیج سے اتر آیا‘‘ یہ افسانہ بھی فکر کے در وا کرتا ہے اور مذہب انسانیت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جو بنی نوع انسان کی خدمت کو بلا ذات و نسل کی تفریق کو نمایاں کرنے کا سبب ہے۔

ان کے زیادہ تر افسانے جو میں نے پڑھے ہیں زندگی کی تلخیوں اور سچائیوں کے گرد گھومتے ہیں، ان کا اسلوب بیان اور انداز تحریر ان کی شناخت ہے۔’’ریگزار میں دریا‘‘ سینئر صحافی حامد علی سید کا پانچواں شعری مجموعہ ہے اس سے قبل ان کے چار شعری مجموعے نقاد و قارئین سے داد حاصل کر چکے ہیں میں خود بھی ان کی شاعری کی قاری رہی ہوں، حامد علی سید نے کل سے آج تک جتنا بھی کلام لکھا ہے وہ سب حالات زندگی، سماجی اور معاشرتی اقدار اور رویوں کا نچوڑ ہے، جسے انھوں نے فنی باریکیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تخلیقی سانچے میں ڈھالا ہے۔ کتاب کے بیک کور پر ان کا خوبصورت کلام درج ہے۔

کل بھی خوش گمانی تھی آج بھی فسانے ہیں

میری رائیگانی کے سلسلے پرانے ہیں

ساتھ لے کے چلنا ہے ریگزار میں دریا

اور اس خرابے میں پھول بھی کھلانے ہیں

یہ اشعار ان کی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں کہ انھوں نے حیات جہد مسلسل میں بسر کی ہے۔ حامد علی کو یاسیت اور ناکامی کے دکھ نے اپنے حصار میں لے لیا اور ناکام خواہشات کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:

ہوا سے دوستانہ چاہتے تھے

چراغوں کو جلانا چاہتے تھے

لہو رسنے لگا ہے انگلیوں سے

ترا پیکر بنانا چاہتے تھے

اپنی سوچ و فکر کی رونمائی اس طرح کی ہے کہ ان پر گزرنے والے غموں نے شعر و سخن میں اپنی جگہ بنالی ہے۔

میں وحشت میں اگر دھندلا رہا ہوں

تمہیں تو روشنی دکھلا رہا ہوں

تمنا سبز ہوتی جا رہی ہے

مگر میں دن بہ دن مرجھا رہا ہوں

256 صفحات پر مشتمل کتاب دیدہ زیب سرورق اور دلکش و بامعنی شاعری سے مرصع ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے افسانوں بنا نہ سکے حامد علی ہیں اور فکر کے

پڑھیں:

حیا

اﷲ تعالیٰ سب کا خالق، مالک، مربی اور حاکم ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کی تخلیق، ملکیت، تربیت اور حاکمیت سے باہر نہیں۔ اسی نے انسانیت کی فوز و فلاح کے لیے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و التسلیمات کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النبیین بناکر رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مقتدا، پیشوا اور اسوۂ حسنہ بنایا۔

آپ ﷺ کی تعلیمات میں اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، ازدواجی، خانگی، عائلی اور دنیوی و اخروی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود و مسلَّم ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے زندگی گزارنے کے تمام اصول و آداب اور اخلاق و کردار امت کے سامنے پیش کردیا ہے، اس لیے قرآن کریم میں فرمایا گیا:

’’ تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اﷲ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو رسول اﷲ میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے۔‘‘ (الاحزاب)

’’اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز (کے لینے) سے تم کو روک دیں، تم رک جایا کرو اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ تعالیٰ (مخالفت کرنے پر) سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الحشر)

کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ کس کو اپنانا چاہیے اور کس سے اجتناب کرنا چاہیے؟ کن چیزوں کو اختیار کرنے سے ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اور کن چیزوں کو اپنانے کی وجہ سے معاشرہ داغ دار ہوتا ہے؟ یہ سب کچھ آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں واضح فرمایا۔ حضور ﷺ نے مردوں اور عورتوں کو عفت، عصمت، پاک دامنی اور شرم و حیا اختیار کرنے کا درس دیا، جس سے معاشرہ پاکیزہ اور صالح بنتا ہے۔ آپ ﷺ نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا، جس پر ملائکہ بھی رشک کرتے تھے، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اپنے دائرہ کار میں رہتے تھے اور اس دائرہ سے باہر جھانکنے کو گناہ، حیا کے خلاف اور حیا کی موت تصور کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ)

حیا کا لغوی معنی: تغیّْر و انکساری ہے، جو انسان کے قلوب و اذہان میں کسی عیب جوئی کے خوف سے جاگزیں ہوتا ہے۔

حیا کا اصطلاحی معنی: حیا ایسی صفت ہے جو منکرات و قبیح چیزوں سے اجتناب کرنے پر برانگیختہ کرتی ہے اور ادا حقوق میں کوتاہی اور تقصیر سے منع کرتی ہے۔ (عون المعبود شرح ابی داؤد)

گویا شریعت کی نظر میں حیا وہ صفت ہے، جس کے ذریعہ انسان بے ہودہ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ دینِ اسلام میں حیا اور پاک دامنی اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ انسان اسے اپنا کر معاشرہ کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کرے۔ اور منکرات و فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہے، تاکہ معاشرہ اَنارکی اور فساد سے بچ جائے۔ حیا انسان کو پاک باز، پرہیزگار، عفت مآب اور صالح انسان بناتی ہے۔

اگر بندے سے کوئی گناہ و معصیت اور لغزش سرزد ہوتی ہے، تو یہ حیا ہی ہے جو اس کو عار، شرمندگی اور ندامت کا احساس دلاتی ہے۔ باحیا انسان کسی غلط کام کے ارتکاب کے بعد لوگوں کا سامنا کرنے سے جھجھک محسوس کرتا ہے۔ حیا مومن کی صفت، ایمان کی شاخ، ایمان میں داخل ہے۔ صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا: ’’آپ ﷺ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ باحیا تھے۔‘‘ حیا اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ معاشرہ کی اَساس اور بنیاد ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے انسانوں کے دلوں میں حیا کے جذبات کو پروان چڑھایا، شرم و حیا والی کیفیات سے بہرہ وَر کیا۔ آپ ﷺ نے ایک اچھا معاشرہ بنانے اور اس معاشرہ کے ہر فرد کو اپنی عادات و اخلاق کو درست کرنے کے لیے نہایت اہم اور ضروری ہدایات اور تعلیمات دیں۔

قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے، بے شک اﷲ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔‘‘ (النور)

’’ اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع کو ظاہر نہ کریں، مگر جس (موقع زینت) میں سے (غالباً) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھا کریں۔‘‘ (النور)

’’اور نماز کی پابندی رکھیے، بے شک نماز (اپنی وضع کے اعتبار سے) بے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روک ٹوک کرتی رہتی ہے۔‘‘ (العنکبوت)

’’ اﷲ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے اور تم کو سمجھاتا ہے، تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘ (النحل)

’’ اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ، خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ ہوں۔‘‘ (الانعام)

’’ آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے حرام کیا ہے تمام فحش باتوں کو، ان میں جو اعلانیہ ہیں وہ بھی اور ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ بھی اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو۔‘‘ (الاعراف)

’’ اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو، بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور بری راہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل)

’’ شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگ دستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا اور اﷲ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا۔‘‘ (البقرۃ)

اسی طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے۔ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ اور کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے۔‘‘ (مسلم، کتاب الحیض)

’’حضرت یعلیٰ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک شخص کو کھلی جگہ (میدان) میں ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے، اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: اﷲ تعالیٰ نہایت باحیا اور سترپوش (عیب پوش) ہے، وہ حیا اور پردہ کو پسند کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص نہائے تو پردہ کرے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

’’حضرت جرہدؓ اصحابِ صفہ میں سے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ ہمارے پاس تشریف فرما تھے اور میری ران ننگی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ران ستر (میں شامل) ہے؟!۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اپنی ران سے کپڑا مت اْٹھاؤ، کسی زندہ کی ران دیکھو، نہ مردہ کی۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت ابو مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے کلام میں سے جو حاصل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت ثابت بن قیسؓ سے روایت ہے کہ امِ خلد نامی عورت نقاب کیے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہ اپنے مقتول (شہید) بیٹے کے بارے میں دریافت کررہی تھی، نبی ﷺ کے بعض اصحاب نے کہا: آپ اپنے (شہید ہونے والے) بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی ہیں اور (اتنی مصیبت اور غم کے باوجود) آپ نقاب کیے ہوئے ہیں؟ اس (عظیم خاتون) نے کہا: اگرچہ میرا لختِ جگر فوت ہوگیا ہے، لیکن میری حیا تو فوت نہیں ہوئی۔‘‘ ( سنن ابی داؤد)

’’حضرت ابی ایوبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: چار چیزیں سب پیغمبروں کی سنت ہیں، شرم اور عطر لگانا اور مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔‘‘ (جامع ترمذی)

’’حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مرد جب جب بھی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

’’حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے فرمایا: اے علی! غیر محرم عورت پر ایک نظر پڑنے کے بعد دوسری نظر نہ دوڑاؤ، اس لیے کہ پہلی نظر تمہارے لیے معاف ہے اور دوسری نظر تمہارے اوپر وبال ہوگی۔‘‘ (ترمذی)

’’حضر ت بہز بن حکیمؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنی شرم گاہ کو بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی کے سامنے ظاہر نہ کرو، میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول! اگر کوئی آدمی تنہا ہو؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: تو اﷲ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم و حیا کی جائے۔‘‘ (ترمذی)

’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند گھر میں موجود نہیں ہوتے ان کے ہاں نہ جایا کرو، شیطان تم میں سے ہر آدمی کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتا ہے جیسے خون جسم میں جاری رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

’’حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے: ہمیشہ شراب پینے والا۔ والدین کا نافرمان۔ اور وہ بے غیرت جو اپنے گھر میں بے حیائی کو (دیکھنے کے باوجود اسے) برقرار رکھتا ہے۔‘‘ (احمد، نسائی)

’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: بری بات جہاں کہیں بھی ہو قابلِ ملامت ہے، اور شرم و حیاء جہاں کہیں بھی ہو باعثِ فخر ہے۔‘‘ (ترمذی)

یہ وہ چند احادیث تھیں، جن میں آپ ﷺ نے امت کو پاک دامنی اور شرم و حیا کے متعلق ہدایات اور تعلیمات عطا کی ہیں۔

شریعت نے شرم و حیا کی بقاء، توالد و تناسل کے سلسلہ کو آگے بڑھانے اور مرد و عورت کی جنسی تسکین کے لیے نکاح جیسے خوب صورت بندھن کا حکم دیا، جس کے نتیجہ میں مرد اور عورت کا آپس میں مودت و رحمت کا رشتہ قائم ہوتا ہے، پھر اس کے ذریعہ رشتہ داریاں، خاندان، معاشرہ اور سماج وجود میں آتا ہے۔ عورت کے چار درجات اور مقام ہیں اور چاروں کو اﷲ تعالیٰ نے عزت و عظمت عطا کی ہے:

عورت اگر ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔

عورت اگر بیٹی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت۔

عورت اگر بہن ہے تو اس کی پرورش، تربیت اور اچھی جگہ رشتہ کردینے پر جنت کی ضمانت۔

عورت اگر بیوی ہے تو مرد کا لباس اور دنیا کی بہترین متاع اس کو قرار دیا گیا۔

آج معاشرہ میں بے راہ روی، آوارگی اور حیا باختگی کے کئی عوامل ہیں:

اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں، آج کے معاشرہ کی اکثریت نے ان تعلیمات کو پڑھنے، سمجھنے، انہیں عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ہرگز ہرگز کوشش نہیں کی۔

اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیا، اس کو دلوں کی پاکیزگی کا ذریعہ اور شریف زادیوں کا شعار قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو عزت و عظمت دی، وقار اور سربلندی کا تاج اس کے سرپر رکھا، اس کو گھر کی ملکہ بنایا، جس سے گھر کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کی وجہ سے گھر میں آرام اور سکون ملتا ہے، مرد اور اولاد کے لیے گھر میں رہنا باعثِ راحت بنتا ہے، لیکن اسلام کے اس نظریہ کے برعکس مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ عورت کو گھر کی بجائے شمعِ محفل اور سامانِ عیش بناکر بازار میں گھسیٹ لے آئے۔ ایسے لوگوں نے عورت کی عزت و عظمت، وقار و شرافت، پردہ، چادر اور چار دیواری کے وقار کو نہ صرف یہ کہ بٹہ لگایا، بل کہ بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق کو بھی پامال کرایا، یوں مساوات کا سبز باغ دکھا کر مغربی تہذیب سے مرعوب طبقہ نے اس صنفِ نازک پر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔

مرد و زن کے اختلاط سے شریعت نے منع کیا، لیکن مغربی نقالی میں ہمارے معاشرے نے بھی مخلوط تعلیمی نظام کو رواج دیا، جس کے آج بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں اور آئے دن اخبارات میں یہ خبریں چھپتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور کلیاں ان آوارہ گردوں اور حیاباختہ درندوں کی بھینٹ چڑھ کر کچل اور مسل دی جاتی ہیں۔

مغربی تہذیب نے انسانیت کو حیوانیت کے قالب میں ڈھال کر مکمل درندہ صفت انسان بنادیا اور اسی تہذیب کے متوالے آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اور آج سماج میں اس کو شریف اور مہذب سمجھا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک مغربیت میں ڈھلا ہوا ہو، وضع قطع، عادات و اطوار، رہن سہن، غرض زندگی کے تمام نشیب و فراز میں جو جتنا مغربی تہذیب کا نقال ہوگا، وہ اتنا مہذب شمار ہوگا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج حیا باختگی کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بیوی شوہر کی ضرورت محسوس نہیں کررہی اور شوہر بیوی کی پروا نہیں کررہا۔ لڑکے اور لڑکیاں نکاح کو اپنے لیے قید اور بے حیائی کو اپنے لیے آسان اور سستا سمجھ رہے ہیں۔

آئے دن طلاقوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور آج ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ آج خاندان سے سکون و اطمینان رخصت ہوچکا ہے، انسانیت جیتے جی مر رہی ہے، گھر برباد ہورہے ہیں، نسلیں تباہ ہورہی ہیں، حیا لٹ رہی ہے، جوانیاں داغ دار ہورہی ہیں، بیٹیوں کی عفت نیلام ہورہی ہے۔ آج کے حیا باختہ معاشرے نے رشتوں کے احترام اور تقدس کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے، ہر شخص اپنے لذتِ تن بدن کی تکمیل میں لگا ہوا ہے، نہ ماں کا تقدس ہے، نہ باپ کا احترام، نہ بیوی کی قدر ہے اور نہ بیٹی کی پہچان۔ غلط، بے حدود اور بے لگام راہیں انسان کو اچھی لگنے لگی ہیں، جس سے سماج بکھرتا جارہا ہے۔

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں اُن کے لیے عذاب ہے درد ناک دنیا اور آخرت میں اور اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (النور)

’’ اور ایسی ہی ہے پکڑ تیرے رب کی جب پکڑتا ہے بستیوں کو اور وہ ظلم کرتے ہوتے ہیں، بے شک! اس کی پکڑ دردناک ہے شدت کی۔‘‘ (ھود)

قومِ لوط پر جو عذاب آیا، ان کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ قوم شرم و حیا سے عاری ہوچکی تھی، بے حیائی کے کام بھری محفلوں اور مجلسوں میں کرتی تھی، ان کی حرکات، سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازار سب کے سب عریانی، فحاشی، آوارگی اور حیاباختگی کا مرقع بن چکے تھے۔ آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کو اس تباہی و بربادی اور ہلاکت کے دَہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

آج کی عورت اگر اپنی زندگی صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اْن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کی تو دور کی بات ہے، اپنے تصور میں بھی نہیں لائے گی اور عورت اپنی تمام تر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوکر اپنے شوہر کے لیے نیک رفیقِ سفر، والدین کے لیے چشمۂ رحمت، بھائی کے لیے گل دستۂ محبت، اولاد کے لیے گہوارۂ الفت و چاہت اور سارے معاشرے کے لیے نیک بخت اور نیک سیرت کا مجموعہ بن کر ساری دنیا کو جنت نما بنا سکتی ہے اور دنیا میں پھیلنے والی تمام برائیوں کا سدِباب بن کر انسانیت کو بھولا ہوا سبق یاد دلا سکتی ہے اور انسانیت کو جہنم کے دہانے سے دور کرکے جنت کی لازوال نعمتوں کی طرف پھیر سکتی ہے۔ بہرحال مرد ہوں یا خواتین، حکم راں ہوں یا رعایا، علماء ہوں یا عوام، سب کو اس معاشرہ سے اس بے حیائی و بے شرمی کو ختم کرنے کی اپنی سی استطاعت اور کوشش ضرور کرنی چاہیے، جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ۔‘‘

’’اے ایمان والو! تم اﷲ کے آگے سچی توبہ کرو، (توبہ کا ثمرہ فرماتے ہیں کہ) امید (یعنی وعدہ) ہے کہ تمہارا رب (اس توبہ کی بدولت ) تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔‘‘ (التحریم)

’’ اور توبہ کرو اﷲ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو! تاکہ تم بھلائی پاؤ۔‘‘ (النور)

اﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری قوم کو سمجھ عطا فرمائے، ہم سب کے حال پر رحم فرمائے، اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کی توفیق سے نوازے، اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

متعلقہ مضامین

  • سائرہ یوسف نے بیٹی نورے کے ساتھ منائی سالگرہ : خوشیوں بھری تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل
  • ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
  • شاعر مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی آج 87 ویں برسی
  • حیا
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • بات ہے رسوائی کی
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • سوشل میڈیا سے خوفزدہ لوگ اپنے غصے کو ٹھنڈا کریں، عارف علوی کا مشورہ
  • سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کیلئے فوڈ چین پر حملہ کیا: ملزمان کا عدالت میں بیان
  • علامہ اقبال کی لاہور میں ہاسٹل لائف، رہائش گاہیں اور شاعری