میرا نہیں خیال، شریف اللّٰہ کی حوالگی کا ٹرین واقعے سے کوئی تعلق ہو، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ شریف اللّٰہ کی حوالگی کا ٹرین واقعے سے کوئی تعلق ہو۔
سیالکوٹ میں جیو نیوز سے خصوصی گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کو دکھ ہو کہ شریف اللّٰہ کو کیوں امریکا کے حوالے کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ شریف اللّٰہ کی حوالگی کا ٹرین واقعے سے کوئی تعلق ہو، پی ٹی آئی سانحہ جعفر ایکسپریس پر پروپیگنڈا کررہی ہے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اتنے روز گزرنے کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی نے واقعے کی مذمت نہیں کی، وہ جیل سے 3 اور 4 صفحات کے خط لکھتے ہیں، اخبارات میں آرٹیکل اور بیانات دیتے ہیں لیکن قومی سانحے کی مذمت نہیں کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے بانی پی ٹی آئی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی پارٹی کا موٹو بن چکا ہے کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی دہشت گردوں کو افغانستان سے لائے اور اپنے اقتدار کی ضمانت لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت پی ٹی آئی نے مشروط کی ہے، ان کا موقف ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو پے رول پر لایا جائے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیاں لگانا نامناسب بات ہے، حکومت نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے، ہفتے دس دن میں معاملہ حل ہو جائے گا کوشش ہے کہ سفری پابندی نا لگے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی نے کہا کہ شریف الل
پڑھیں:
فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) بیشتر لاطینی امریکی ممالک میں سزائے موت تو ختم کر دی گئی ہے لیکن آج بھی وہاں اس موضوع پر کبھی کبھی عوامی سطح پر بحث کی جاتی ہے۔ اور اکثر اس بحث میں غلط معلومات یا مس انفارمیشن کا عنصر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مثلاﹰ اس حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا: ''چین نے ترقی کے حصول کے لیے پیرو اور لاطینی امریکی ممالک کو سزائے موت (نافذ کرنے) کی تجویز دی۔
‘‘لیکن کیا ایسا واقعی ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس پر تحقیق کی۔
دعویٰ کہاں سامنے آیا؟یہ دعویٰ ایک فیس بک پوسٹ میں کیا گیا، جسے تقریباﹰ 35,000 صارفین نے شیئر کیا۔
اس پوسٹ میں کہا گیا تھا، ''سابق چینی وزیر اعظم ون جیاباؤ نے کولمبیا، وینیزویلا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا سمیت لاطینی امریکی اور وسطی امریکی ممالک کو وہاں سلامتی سے متعلق بحران کے حل اور اس سے بھی بڑھ کر ترقی کے حصول کے لیے سزائے موت کے نفاذ کی تجویز دی ہے۔
(جاری ہے)
‘‘اس پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ون جیاباؤ نے بدعنوان سیاستدانوں کو سزائے موت دینے اور ان کی تنخواہوں میں کمی کی حمایت کی۔
فیس بک کے علاوہ یہ پوسٹس ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی گردش کرتی رہیں۔
فیکٹ چیک ٹیم کی تحقیق کا نتیجہڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم کی جانب سے تحقیق کے بعد اس دعوے کے مستند ہونے کے کوئی ثبوت و شواہد نہیں ملے۔
تو اس طرح یہ دعویٰ غیر مصدقہ ہی رہا۔تحقیق کے دوران ایسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوں کہ ون جیاباؤ نے کبھی بھی کوئی ایسا بیان دیا ہو جس میں انہوں نے سزائے موت کو ترقی سے منسلک کیا ہو۔ اس حوالے سے ہسپانوی اور چینی دونوں زبانوں میں متعلقہ کی ورڈز کی سرچ بھی کی گئی، لیکن اس دعوے کو ثابت کرتی کوئی مستند خبر یا سرکاری ریکارڈز نہیں ملے۔
اور چینی وزارت خارجہ کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی یہ بیان موجود نہیں ہے۔چینی میڈیا کے مطابق ون جیاباؤ نے سزائے موت کے موضوع پر 14 مارچ 2005ء کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کی تھی۔ ایک جرمن صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا: ''موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر چین سزائے موت ختم نہیں کر سکتا لیکن ایک نظام کے تحت یہ یقینی بنایا جائے گا کہ سزائے موت منصفانہ طریقے سے دی جائے اور اس میں احتیاط برتی جائے۔
‘‘اس موضوع پر ون جیاباؤ کا عوامی سطح پر دیا گیا یہ واحد بیان ہے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بیان میں وہ صرف چین کے حوالے سے بات کر رہے تھے اور انہوں نے لاطینی امریکی ممالک کا کوئی ذکر نہیں کیا، نہ ہی کسی اور ملک کو کوئی تجویز دی۔
پھر بھی دیگر ممالک کو سزائے موت کی تجویز دینے کا بیان ان سے کئی برسوں سے منسلک کیا جاتا رہا ہے۔
اسے 2015ء سے کئی ویب سائٹس نے شائع کیا ہے، تاہم قابل اعتبار ذرائع کا حوالہ دیے بغیر۔تو یہاں یہ بات بھی اہم ہو جاتی ہے کہ ون جیاباؤ صرف 2012ء تک ہی چین کے وزیر اعظم رہے تھے۔ ایسے میں اس بات کا امکان بہت کم ہے انہوں نے 2015ء یا اس کے بعد ایسا کوئی بیان دیا ہو گا۔
کیا تصویر میں واقعی ون جیاباؤ ہی ہیں؟اس پوسٹ میں مبینہ طور پر ون جیاباؤ کی تصویر بھی لگائی گئی ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تصویر میں موجود شخص ون جیاباؤ ہی ہیں۔
اس تصویر میں وہ اپنی دیگر تصویروں سے کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں۔ سال 2012 سے پہلے لی گئی تصویروں میں ون جیاباؤ کے بال کم تھے۔ یہ کمی بالخصوص ان کی پیشانی کے پاس یعنی ہیئر لائن میں واضح تھی۔ تاہم اس تصویر میں ان کی ہیئر لائن قدرے گھنی نظر آتی ہے۔
اسی طرح ان کی دیگر تصاویر کے مقابلے میں اس فوٹو میں ان کی ناک، کان اور ہونٹ بھی کچھ مختلف لگ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، کہا جاتا ہے کہ کئی تصاویر میں ون جیاباؤ کے چہرے پر کچھ داغ نمایاں رہے ہیں، لیکن اس تصویر میں ایسا نہیں ہے۔
چناچہ ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس فیس بک پوسٹ میں استعمال کی گئی تصویر کی ریروس امیج سرچ کی، لیکن اس میں موجود شخص کی شناخت کے حوالے سے کوئی حتمی ثبوت نہیں مل سکا۔
(مونیر قائدی، ہواوہ سمیلا محمد، ہوان ہو) م ا / ر ب