لاہور:پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر نے پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے درمیان پاور شئیرنگ فارمولے کے معاملے پر کہا ہے کہ پی پی پی پنجاب میں اپنا ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) یا انتظامی افسر لگانا نہیں چاہتی اور صوبائی بیوروکریسی میں ہمارا کوئی گروپ نہیں ہے۔

پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان پاور شیئرنگ کے حوالے سےاجلاس کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے مشترکہ طور پر میڈیا سے گفتگو کی۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد ملک کو مسائل اور مشکلات سے نکالنے کے لیے ہے، آج کی ملاقات میں تحفظات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے نظام کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔

ملک محمد احمد خان نے کہا کہ ہمارا مسئلہ ملک کو آگے لے کر چلنا ہے تاکہ عوام مطمئن ہو سکیں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو وفاق کی سیاست کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں آئے اور مسلم لیگ (ن) سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں جائے۔

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہونا میرا کام نہیں یہ فیصلہ عوام کا ہوگا، کس نے یہ بات پھیلائی کہ پیپلزپارٹی اپنا ڈپٹی کمشنر یا انتظامی افسران لگانا چاہتی ہے۔

سردار سلیم حیدر نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا تو پنجاب کی بیوروکریسی میں کوئی گروپ نہیں ہماری سیاست صرف عوام کے گرد گھومتی ہے۔

اس موقع پر چوہدری شافع حسین نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو نیشنل سیکیورٹی پلان پر کام کرنا چاہیے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سردار سلیم حیدر کہ پیپلزپارٹی نے کہا کہ مسلم لیگ پی پی پی

پڑھیں:

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، کہیں بھی دہشتگردی ہو مذمت کرتے ہیں، خواجہ آصف
  • کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، پیپلزپارٹی
  • گورنر پنجاب ضرور ہوں مگر پہلے پیپلز پارٹی کا جیالا ہوں، سردار سلیم حیدر
  • پنجاب حکومت نے ملازمین کی ٹیکس کٹوتی سے  متعلق نئی ترمیم متعارف کرادی
  • نہری منصوبہ، پانی کی تقسیم نہیں، قومی بحران کا پیش خیمہ: مخدوم احمد محمود 
  • گورنر پنجاب نے کسانوں اور کاشتکاروں کو پیپلزپارٹی کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرادی
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • وفاق کا کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلیے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
  •   کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
  • سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر ملکی وقار کیلئے کام کر رہے ہیں: گورنر پنجاب