Express News:
2025-04-22@06:23:59 GMT

شریعت میں علم اور عقل لازم و ملزوم

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

’’اللہ نے یہ دنیا اس لیے بنائی کہ اس دنیا میں نظر آنے والی چیزوں کے واسطے سے لوگ اس کے روحانی وجود تک رسائی حاصل کرسکیں اور اس کی محیرالعقول نشانیوں کو سمجھ سکیں‘‘۔ پاولو کوئیلو کی کتاب ’’الکیمسٹ‘‘ کی یہ تحریر قرآن کریم کےاس ایک پہلو کی ترجمان ہے جس کا موضوع ہی ’’علم تذکیر بآلاء اللہ‘‘ ہے یعنی ’’اللہ کی نشانیوں کا علم‘‘۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا میں جو بہت سی بامقصد نشانیاں بکھیر ئی ہوئیں ہیں اس لیے کہ ان کو دیکھ کر، سمجھ کر انسان اپنے رب کی شناخت کرے اور یہ نشانیاں اس کے ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرسکیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں البتہ عقلمندوں کےلیے نشانیاں ہیں‘‘ (آل عمران، 190)

قرآن کریم میں بار بار انسان کو ’’تذکر، تدبر، تفکر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد‘‘ سے ستر سے زائد مقامات پر دعوت فکر دی ہے کہ وہ علم کو عقل اور تدبر سے سمجھے اور اس کی بنائی ہوئی نشانیوں کے ذریعے سے اس کی ذات کا ادراک حاصل کرے۔ کیونکہ عقل ہی علم کی رہنما ہے۔ اسی لیے تو علم، عقل کے تابع ہے۔ لہٰذا وہ علم ہی غیر منافع ہوگا جس کو عقل کے بنا استعمال کیا اور وہی علم وبال جان بن جائے گا۔

قرآن کریم میں اہل جہنم کے بارے میں فرمان ہے ’’اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے‘‘ (الملک، آیت 10) یعنی بغیر تدبر اور سمجھ کے ان کا علم ان کو کوئی فائدہ نہیں دے سکا۔

سورہ نحل میں شہد کی مکھی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا ہے کہ وہ مختلف پھولوں سے رس چوستی ہے۔ اس کے پیٹ میں سے ایک شفا دینے والی چیز نکلتی ہے (شہد) جس میں عقل والوں کےلیے نشانی مقرر کی گئی ہے۔ آخر یہ نشانی ہماری کس طرف رہنمائی کرتی ہے؟ اسی ذات بے مثال کی طرف۔ پہاڑوں کے وجود کے بارے میں زمین و آسمانوں کی تخلیق میں رات اور دن کے بدل بدل کر آنے میں بارش اور سورج کی حرارت میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں رکھی گئی ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

ارشاد ہے ’’چلنے پھرنے والوں میں سب سے برے وہ گونگے اور بہرے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے‘‘ (انفال 22)

عقل کا ثبوت دلیل ہے، اسی لیے قرآن دلیل دیتا ہے اور دلیل مانگتا ہے۔ نماز کا حکم دیا گیا ہے تو فرما دیا کہ اس لیے کہ وہ بےحیائی اور فواحش سے روکتی ہے۔ روزے کے احکام میں مقصد بیان ہے کہ تم پرہیزگار بنو اور تمہیں اندازہ ہو کہ بھوک اور پیاس کی شدت انسان کو کس طرح متاثر کرتی ہے اور حکم حج میں مال اور جان کو اس کی راہ میں صرف کرکے اس کے راہ میں مسافر کی حیثیت سے آنے میں دلوں کے تقویٰ کا حصول ہے۔ زکوٰۃ میں مقصد ہے دردمندی۔ قرآن حکیم اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے بھی دلیل و منطق کو بنیاد بناتا ہے اور دوسروں سے بات کرتے ہوئے ان کے نظریے کی دلیل بھی مانگتا ہے۔

قرآن کریم کا انداز ہرگز ایسا نہیں ہے کہ اس کی تعلیمات پر آنکھیں بند کرکے گر پڑیں۔ قرآن خود آپ کو اپنی ہی اندھی تقلید کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دیتا ہے۔ عباد الرحمٰن یعنی اللہ کے بندوں کی خصوصیات بیان فرماتے ہوئے سورہ الفرقان میں ارشاد ہے ’’یہ (عبادالرحمن) وہ لوگ ہیں کہ جب انھیں ان کے رب کی آیات کی طرف متوجہ کیاجاتا ہے تو گونگے اور اندھے ہوکر ان پر نہیں گر پڑتے‘‘۔ یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے بالکل بھی اجازت نہیں کہ اس کے کلام کو سمجھے بنا ہی پڑھا جائے بلکہ آنکھیں کھول کر اور عقل سے کام لے کر احکام الٰہی کو سمجھا جائے۔ اسی لیے تو قرآن غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، تاکہ اس کے ہر حکم میں حکمت تلاش کرو، اس کی روشنی میں مقاصد کو ڈھونڈو اور آگے بڑھو۔ اور یہ حکم صرف قرآنی آیات میں نہیں بلکہ پوری کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں میں ہے جو کہ اس ذات کے ہونے اور اس کے راستے کی طرف رہنمائی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

لیکن ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم نے کائنات میں بکھری اس کی نشانیوں پر غور کیسے کرنا تھا جبکہ ہم نے اس کے کلام پر ہی غور نہیں کیا۔ اور ہم اسی طرح اس کی آیات پر بہرے اور گونگے ہو کر گر پڑے جس سے اس نے منع کیا تھا۔ ہم نے ’’الف، لام، میم‘‘ پڑھ کر تیس نیکیوں کا حساب لگا لیا، لیکن اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ کیا یہ عبادالرحمٰن کی صفت ہے جس کا ذکر خود اللہ تبارک تعالیٰ فرما رہے ہیں؟ کیا ہم عباد الرحمٰن کہلانے کے صحیح حق دار بھی ہیں؟ عباد الرحمٰن بننا ہے تو اس کے حکم کے تابع، اس کے کلام کو صرف پڑھنا ہی نہیں سمجھنا بھی اور اس پر عمل بھی کرنا ہے۔

رسول اللہ کے فرمان کے مطابق ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘ لیکن ہم نے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کو رائج کردیا۔ آخر کس حدیث کے تحت؟ اس لیے تو علم اور عقل کو لازم و ملزوم رکھا گیا۔ وہ علم کبھی آپ کو فائدہ نہیں دے سکتا جو عقل سے بے بہرہ ہو، کیونکہ عقل آپ سے اس علم میں غوروفکر کا تقاضا کرتی ہے۔ عقل کے بنا آنکھیں ہوتے ہوئے بھی شریعت اسے اندھے سے تعبیر کرتی ہے۔

فرمان ہے۔ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا بلکہ اور بھی بھٹکا ہوا (بنی اسرائیل)

جب ہم کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے اختتام تک ہم یہ رائے دینے کے اہل ہوجاتے ہیں کہ اس کتاب میں مصنف نے کیا کہا ہے جبکہ قرآن مجید کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ اس میں اللہ تبارک تعالیٰ کیا فرمارہے ہیں، ہم سے کس بات کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ کیونکہ نہ اس کی تعلیمات کو ہم نے سمجھا، نہ اس پر غورو فکر اور تدبر سے کام لے کر کچھ سیکھا۔ اسی لیے تو آخرت میں جب رسول اللہؐ اذب ربانی سے امت کی شفاعت کریں گے تو وہ لوگ حکم الٰہی سے شفاعت سے بالکل محروم ہوجائیں گے جنہیں قرآن نے روک دیا۔ مراد وہ لوگ جنہوں نے نہ قرآن کو سمجھا اور نہ اس کے احکام پر عمل پیرا ہوسکے۔

سو وہ کلام الٰہی جس پر ہماری دنیا اور آخرت کا دارومدار ہے آخر اس کے احکام کو سمجھنے میں ’’علم و عقل‘‘ کے استعمال سے اتنی بے اعتنائی کیوں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اللہ تبارک اور عقل اسی لیے کرتی ہے لیے تو کی طرف سے کام اور اس اس لیے

پڑھیں:

‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا؛ رانا ثناء اللہ

سٹی 42 : وزیراعظم  کے مشیر برائے بائے الصوبائی رابطہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ ‎اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں، کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا۔ 

 رانا ثنا اللہ خان نے اپنے بیان میں کہا کہ ‎‎قائد محمد نواز شریف  وزیراعظم شہباز شریف نے پی پی پی سے بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ‎اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ ‎پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے۔  

اسحاق ڈار کی افغان حکام سے اہم ملاقاتیں، مشترکہ امن و ترقی کا عہد

رانا ثنا اللہ نے کہاکہ 1991ء میں صوبوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور 1992ء کے ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں، ‎پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔‎‎

انہوں نے مزید کہا کہ اکائیوں کی مضبوطی کو وفاق کی مضبوطی سمجھتے ہیں، ماضی کی طرح اسی طرز عمل پر چلتے رہیں گے، ‎آئین و جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والی جماعت کے طور پر اکائیوں اور اس میں رہنے والے عوام کے حقوق کے تحفظ پر سمجھوتہ کیا نہ کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ‎بات چیت اور مشاورت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ 

سرکاری گاڑی کا استعمال، سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کرنیوالے ڈان ساتھی سمیت گرفتار

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • پنجاب میں موٹر سائیکلوں کے لیے بھی فٹنس سرٹیفکیٹ لینا لازمی قرار دینے کا فیصلہ
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • یہودیوں کا انجام
  • دارارقم سکولز خیابان قائد کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات کا منصورہ آڈیٹوریم میں انعقاد
  • دارارقم منصورہ برانچ لاہور میں طلبہ وطالبات کے اعزاز میں تکمیل حفظ قرآن کی تقریب
  • ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا؛ رانا ثناء اللہ
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ