کمشنریا ممبر الیکشن کمیشن کے استعفے، انتقال یا نااہلیت کی صورت خالی اسامی کتنے دن میں پر ہونی چاہیے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
کمشنریا ممبر الیکشن کمیشن کے استعفے، انتقال یا نااہلیت کی صورت خالی اسامی کتنے دن میں پر ہونی چاہیے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 15 March, 2025 سب نیوز
کراچی(آئی پی ایس ) آئین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان میں خالی اسامی 45 دن میں پر ہونی ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئین کے آرٹیکل215 فور کیتحت کمشنریا ممبر الیکشن کمیشن کی خالی اسامی 45 دن میں پر ہونا ہوتی ہے تاہم 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمشنریا رکن نئی تقرری تک عہدے پر رہیں گے۔
ذرائع الیکشن کمیشن کا بتانا ہے کہ کسی ممبر کے استعفے، انتقال یا نااہلیت پر 45 دن میں سیٹ کا پر ہونا آئین کیتحت لازم ہے تاہم موجودہ حالات میں یہ نشستیں خالی تصور نہیں کی جا سکتیں۔ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 215 (4) کیتحت 45 دن کی مدت موجودہ حالات میں لاگو نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ رواں برس 26 جنوری کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان نثار احمد درانی اور شاہ محمد جتوئی کی مدت ملازت باضابطہ طور پر ختم ہو چکی تاہم آئین کے آرٹیکل 215 (1) میں حالیہ ترمیم کے تحت یہ تینوں ارکان اپنی خدمات جاری رکھیں گے جب تک کہ ان کے متبادل کی تقرری نہ ہو جائے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن خالی اسامی
پڑھیں:
سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ، عمر ایوب
اسلام آباد:پی ٹی آئی رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمرا یوب نے کہا ہے کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر توہین عدالت کیس مقرر نہ ہونے پر عمر ایوب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے، جہاں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2 دن پہلے درخواست دائر کی تھی، تاحال ہماری درخواست مقرر نہیں ہوئی، اس پر دائری نمبر لگ چکا ہے۔
میڈیا کے نمائندوں گفتگو میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ 2 دن پہلے ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور قیادت موجود تھی ۔ چیف جسٹس کے پاس پیش ہونا چاہا مگر وہ شاید جمعہ کی وجہ سے چلے گئے تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ پٹیشن کو دائری نمبر لگا دیا گیا ہے مگر وہ ابھی تک فکس نہیں ہوئی۔ پہلے بھی ہمارے کیس یہاں پر لگتے رہے ہیں، اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ اُس وقت کوئی زمین آسمان اوپر نیچے نہیں ہوا۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر پی ٹی آئی کی قیادت جو گرفتار ہیں وہ سیاسی قیدی ہیں ۔ مجھ پر بسکٹ چوری تک کے کیس لگائے گئے ہیں۔ ہم لوگ یہاں آئے ہیں اور انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ ہی کھٹکھٹائیں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم ریاست کا حصہ ہیں، ریاست کی جو تعریف یہ لوگ کرتے ہیں وہ یکسر مختلف ہے۔ عقل کے اندھوں سے کہتا ہوں کے آئین کا مطالعہ کر لیں تو سمجھ آئے گا کہ ریاست کیا ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہارڈ اسٹیٹ نہیں کیوں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہی نہیں،یہاں صرف جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نہ ڈھیل مانتے ہیں نہ ہی ڈیل کو مانتے ہیں۔ بانی کی بہنوں کو سیاست میں لانا ناجائز ہے ، بہنیں بطور فیملی ممبر ملاقات کرتی ہیں۔
انہوں نے اپنے استعفے کی خبروں کی تردید بھی کی اور کہا کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ۔ پی ڈی ایم حکومت میں ہم نے دھاندلی کیسے کرلی؟ میرے خلاف امیدوار ہار مان چکے ہیں لیکن ریموٹ کنٹرول والوں کو چین نہیں آرہا۔