حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کے خدشات پر مذاکرات پر کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
لاہور میں پی پی اور ن لیگ کی کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس آج شام کو ہوگا ۔ ذرائع کے مطابق راجہ پرویز اشرف، حسن مرتضی، ندیم افضل شرکت کریں گے، ن لیگ وفد میں اسحاق ڈار، رانا ثنا، مریم اورنگزیب اور سعدرفیق شریک ہوں گے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان پاور شیئرنگ کے معاملے پرپاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کوارڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس آج شام 4 بجے گورنر ہاؤس میں طلب کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاور شیرنگ کے معاملات پر اجلاس کے بعد کمیٹی اراکین کے اعزاز میں افطار ڈنر بھی گورنر ہاؤس میں ہوگا۔ اجلاس میں مسلم لیگ نون کی قیادت پیپلز پارٹی کے شکوے دور کرنے کی کوشش کرے گی۔
پیپلزپارٹی نے صوبائی اتھارٹیز میں نامزدگیوں، ترقیاتی فنڈذ اور بیوروکریسی میں تبادلے کیلئے اعتماد میں لینے کے مطالبات کر رکھے ہیں۔
اجلاس کی میزبانی گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کریں گے، مشترکہ کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، حسن مرتضی، ندیم افضل چن اور قاسم گیلانی پیپلز پارٹی کی طرف سے شریک ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ خان، سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور خواجہ سعد رفیق کی شرکت متوقع ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن
پڑھیں:
امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی سازش ہو رہی ہے، کاظم میثم
اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ حکومتی صفوں سے تمام مذہبی اکابرین کی اہانت ناقابل برداشت ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کریں۔ خاموش رہنے کا مطلب اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی جانب سے ہی بیان تصور ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ معدنی وسائل پر قبضہ کے لیے گلگت بلتستان کے عوام کو تقسیم کیا جائے گا، فرقہ واریت اور تعصبات کو ہوا دی جائے گی اسکے بعد خطے کا امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈیں گے۔ گلگت بلتستان کے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں اور کسی بھی مراعات یافتہ غیر سیاسی شخص کے بیانیے کو قبول نہیں کریں گے۔ حکومتی صفوں سے تمام مذہبی اکابرین کی اہانت ناقابل برداشت ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کریں۔ خاموش رہنے کا مطلب اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی جانب سے ہی بیان تصور ہو گا۔ غیر سیاسی سلیکٹیڈ مراعات یافتہ افراد کے بیان پر وزیراعلیٰ کی طرف سے وضاحت آنی چاہیے۔ ان تمام تر مس ڈیلیورنس کا ذمہ دار اس حکومت کو بنانے والے لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی کارکنوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر غیر سیاسی افراد کو نواز کر جی بی کی سیاسی تاریخ میں ایک ناجائز روایت ڈالی۔
کاظم میثم کا مزید کہنا تھا کہ ملت تشیع کے نامور عالم دین آغا راحت حسینی پر توہین آمیز گفتگو ثابت کرتا ہے کہ خطے کو نئے بحران کی طرف دھکیلنے کا سکرپٹ تیار ہو چکا ہے۔ اس کی آڑ میں فرقہ واریت اور علاقائیت کو ہوا دینے کی حکومتی کوشش کے علاوہ کیا سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کسی مذہبی رہنما یا کسی خفیہ ادارے کو وسائل کی غیرمنصافہ تقسیم کے ثبوت چاہیے تو ہم سے لے لیں، اگر ثبوت نہ فراہم کر سکے تو ہم سیاست چھوڑیں گے۔ رہی بات ہمارے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی کوششوں کی تو کوئی ذہن سے نکال لیں کہ خوف جبر اور سازشوں کے ذریعے یہاں کے وسائل کو لوٹ سکو گے۔ تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی اہانت وہ بھی حکومتی صفوں اور سیاسی طبقے کی طرف سے افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ دیامر بھی ہمارا ہے اور گلگت و بلتستان بھی۔ اتحاد و وحدت، مذہبی و علاقائی ہم آہنگی کچھ عناصر سے ہضم نہیں ہو رہا۔حکمران اور حکومتی مشنری کوئی مقدس ہستی نہیں جس پر تنقید نہ ہو۔ ہم ریاستی اداروں کو بتلانا چاہتے ہیں کہ ریاست کے وسائل کو غیر سیاسی کو سیاسی بنانے کے لیے خرچ نہ کریں۔