ویب ڈیسک: پاکستانی سیاسی خاندان سے وابستہ لیکن سیاست سے کوسوں دور رہنے والی ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو نے بھائی کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ 

اپنے بھائی کو مشعلِ راہ قرار دینے والی فاطمہ بھٹو نے سیاسی خاندان کے سپوت ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس انسٹاگرام اور ایکس پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔

اسلاموفوبیا عالمی امن، بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ایک خطرہ ہے: مریم نواز

فاطمہ بھٹو نے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے بھائی کے پیغام کو ری شیئر کیا ہے۔ 


انہوں نے بھائی کے پیغام کو ری شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میرے بھائی ذوالفقار علی بھٹو جونیئر زندگی میں جو بھی راستہ اختیار کریں، انہیں میری مکمل حمایت حاصل ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کا معاملہ، سماعت 18 مارچ کو ہوگی

ان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔

واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پوتے ، مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے سیاست میں قدم رکھنے کی تصدیق کے بعد اپنے پہلے بیان میں واضح کیا ہے کہ میں اپنے والد شہید میر مرتضیٰ بھٹو کی میراث کو آگے لے کر چلوں گا تاہم میرے پاس والد کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو میں کوئی عہدہ یا رکنیت نہیں ہے۔

برائلر مرغی کی قیمتوں کو پر لگ گئے چکن مزید مہنگا ہوگیا

View this post on Instagram

A post shared by Zulfikar Ali Bhutto ذوالفقار علي ڀٽو (@zulfikaralibhutto)

انہوں نے بتایا ہے کہ مجھے سیاست کا تجربہ نہیں اور ابھی میں پاکستانی عوام سے سیاست سیکھ رہا ہوں اور ان کے مسائل سن رہا ہوں، جو بہت ضروری ہے۔

سیاسی خاندان کے سپوت ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنے بیان میں پاکستان کے جغرافیے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور یہ بھی کہا کہ میرا راستہ میرا اپنا ہے، لیکن کچھ لوگ میرا نام استعمال کر کے سیاست کر رہے ہیں۔

ریلوے اسٹیشن پر ڈانس کرتے لڑکی کیساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ ویڈیو وائرل

 انہوں نے نیک خواہشت اور دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جو بیان یا تبصرے ان کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہوں صرف ان ہی پر یقین کیا جائے، دیگر کسی ذرائع سے آنے والی معلومات یا بیانات سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ ان کے ذمے دار ہیں۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: ذوالفقار علی بھٹو جونیئر فاطمہ بھٹو نے بھائی بھائی کے انہوں نے کیا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی بڑی جماعت، جو فیصلہ کرے قبول ہو گا: بیرسٹر گوہر 
  • کترینہ کیف کی بہن کی بالی ووڈ میں دھواں دار انٹری، فلم کا ٹیزر جاری
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • سام سنگ کا نیا اسمارٹ فون آتے ہی چھا گیا!
  • معروف ٹک ٹاک اسٹار کا مبینہ لیک ویڈیو پر ردعمل سامنے آگیا
  • ویمنز ورلڈ کپ تک رسائی، پاکستان ٹیم کی کپتان فاطمہ ثنا کیلیے بڑا اعزاز
  • وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی آج ایسٹر کا تہوار منا رہے ہیں
  • جان ایف کینیڈی کے بھائی رابرٹ کینیڈی کے قتل سے متعلق 10 ہزار صفحات منظر عام پر آگئے
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی برادری آج ایسٹر کا تہوار منا رہی ہے