شیعہ سنی کے درمیان سحری کے وقت میں کوئی فرق نہیں،علامہ ریاض نجفی
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعة المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس الشیعہ کے صدر کا کہنا ہے کہ ہر حاجت اور ہر فرض کی چابی دعا ہے، سب نعمتیں اور رحمتیں اللہ کے پاس ہیں اور ان کو حاصل کرنے کا وسیلہ دعا ہے، مریض اور مسافر روزہ نہ رکھیں، رمضان المبارک کے بعد ان روزوں کی قضا کو پورا کرے، شیعہ سنی کے درمیان افطار کے وقت میں دس منٹ کا فرق ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے واضح کیا کہ اہل تشیع اور برادران اہلسنت کے درمیان سحری کے وقت میں کوئی فرق نہیں، ایک ہی وقت ہے، صبح صادق تک سحری کر سکتے ہیں، جبکہ افطار کے وقت میں دس منٹ کا فرق ہے چونکہ قرآن مجید میں روزہ کو رات تک پورا کرنا کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے ایسے ہی فرض کیے ہیں جیسے کہ پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اگر نہیں رکھیں گے تو گناہگار ہوں گے، البتہ اگر کوئی شخص مریض ہو یا مسافر تو اسے یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور رمضان المبارک کے بعد ان روزوں کی قضا کوپورا کرے۔
جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعة المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن مجید نے ایمان کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنے، کفر، فسق اور نافرمانی نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ میں تمہارے قریب ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول جب بھی پکاریں تو فوری جواب دینا چاہیے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ حافظ ریاض حسین نجفی نے کہا کہ صیام کی آیات کے دوران دعا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہر حاجت اور ہر فرض کی چابی دعا ہے۔ سب نعمتیں اور رحمتیں اللہ کے پاس ہیں اور ان کو حاصل کرنے کا وسیلہ دعا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ،اس لیے اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعا کریں چونکہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اللہ تعالی کے وقت میں دعا ہے فرض کی
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔