WE News:
2025-04-22@09:41:28 GMT

نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

پچھلی بار ہم نے ویکیوم ڈیلیوری کے حوالے سے بات کی تھی اور آج فورسیپس کی باری ہے۔ فورسییپس فولادی دھات سے بنے ہوئے چمچ نما اوزاروں کو کہا جاتا ہے جن کی مدد سے زچگی کے دوران بچے کے سر کو کھینچا جاتا ہے۔

چمچ کی شکل والے دونوں حصے وجائنا میں ڈال کر بچے کے کانوں کے گرد لگائے جاتے ہیں۔ وجائنا سے باہر موجود ہینڈل کو لاک کیا جاتا ہےاور پھر ہینڈل کو کھینچتے ہوئے بچے کے سر کو باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟

زچگی کے عمل میں دنیا کے کسی بھی اور شعبے کی طرح پیچیدگیاں ہونے کا احتمال ہر وقت رہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے شعبوں کی پیچیدگی میں انسانی جان کی بجائے بے جان چیزوں کے نقصان کا احتمال ہوتا ہے جبکہ زچگی میں 2 انسانی جانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

فورسیپس 17ویں صدی میں ایجاد ہوئے اور مقصد وہی کہ اگر بچہ پیدا نہ ہو رہا ہو اور بچے کو آکسیجن ٹھیک طرح نہ مل رہی ہو تب بچے کے سر کے دونوں طرف فورسیپس لگا کر اسے باہر نکالا جائے۔

فورسیپس سے ہماری آشنائی تب ہوئی جب ’آتش‘ کو گائنی کی اے بی سی بھی نہیں آتی تھی۔ لیکن ہنر سیکھنے سے پہلے ہی فورسییپس ہمارے جسم پر چل گئے اور پہلی زچگی میں ہی بیڑا غرق ہو گیا۔

زچگی کے بعد بچی کا سر اتنا عجیب دکھتا تھا کہ ہماری امی کا دل ہی بیٹھ گیا یہ سوچ کر کہ شاید بچی نارمل نہیں ہے۔ بعد میں عقدہ کشائی ہوئی کہ اسٹیل کے بنے ہوئے دھاتی چمچوں نے ماں بیٹی کو خوب مزہ چکھایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: میرا یہ حال کیوں ہوا؟ 

اسپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا تو ہم نے فورسیپس، ویکیوم اور سیزیرین کے درمیان تنقیدی جائزہ لینا شروع کیا کہ کس کی کارکردگی بہتر ہے؟ آپس کی بات ہے کہ فورسیپس ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ترین ٹھہرے اور ہم نے ہمیشہ ویکیوم اور سیزیرین کو فورسیپس پر ترجیح دی۔

ان دنوں کیوی ویکیوم نے جنم نہیں لیا تھا۔ اس لیے اگر سیزیرین کے دوران بچے کا سر باہر نکالنے میں مشکل ہوتی تو فورسیپس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ فورسیپس کو کانوں سے پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر کٹ لگاتے کئی بار دیکھا اور برتا بھی سو وہ مزید ناپسندیدہ ہو گئے۔

ہمارے حساب کتاب کے مطابق پیٹ کٹنے اور وجائنا کٹنے میں کوئی فرق نہیں۔ وجائنا کبھی بھی اصلی حالت میں واپس نہیں جاتی اور کئی بار تو اس قدر کٹ پھٹ جاتی ہے کہ نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق

بات ہو رہی تھی فورسیپس ڈیلیوری کی، کئی ممالک میں فورسیپس ڈلیوری کو محدود کر دیا گیا ہے اور سیزیرین کو اس کے مقابلے میں محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دھاتی اوزار وجائنا جیسی تنگ جگہ میں داخل ہو کر جس میں پہلے سے بچے کا سر بھی موجود ہو، کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ اور کھینچنے کے عمل کے دوران وجائنا کے آس پاس پیشاب اور پاخانے والے اعضا کس حد تک متاثر ہو سکتے ہیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لیبر روم میں زچہ بچہ کے ساتھ جو چاہے ہو، مگر پیٹ نہ کٹے تو زچہ کی بلے بلے ہو جاتی ہے چاہے بعد میں وہ ساری عمر تاوان بھرتی رہے۔

چلیے آپ کو اپنے اناڑی پن کے دور کا ایک قصہ بھی سنا دیتے ہیں تاکہ آپ کو علم ہو کہ ہر طرح کا کھیل کھیل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

بڑے شہروں میں یہ پریکٹس عام ہے کہ چھوٹے چھوٹے نرسنگ ہومز کو جب ایمرجینسی میں مریض کا سیزیرین کروانا ہو تو وہ کسی ٹرینی ڈاکٹر یا نئے نئے اسپیشلسٹ بنے ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں، ان کے لیے یہ انتظام کم خرچ بالا نشین اور ڈاکٹر کے لیے نئی نئی اسپیشلائزیشن کی پریکٹس اور کچھ آمدنی بھی۔

مزید پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

لیجیے صاحب، دیکھا دیکھی ہمیں بھی شوق ہوا اس زمانے میں کہ 2،4 جگہ اپنا نام لکھوائیں اور جب نرسنگ ہوم والے زچ ہو جائیں تو اپنی فہرست میں لکھے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز میں سے کسی ایک کو بلا لیں۔ مقصد وہی کہ 4 پیسے اضافی کما لیں، بچوں کے اسکولز کی فیس ہی نکل آئے گی۔ ایسے میں کبھی کبھار قرعہ ہمارے نام نکل آتا۔ سوچیے پنڈی کی سرد رات میں گرم گرم بستر سے نکل کر جب جانا پڑتا تو کیسا لگتا ہو گا؟ کیا کریں یہ ایسی جنگ ہے جو زنانیوں کو ہی کھیڈنی پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک تاریک رات میں نرسنگ ہوم سے بلاوا آیا۔ مرتے کیا نہ کرتے ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے چلے گئے فوراً۔ سیزیرین مشکل تھا، فربہ اندام مریضہ، پچھلے سیزیرین کی وجہ سے جسم کی سب تہیں آپس میں الجھی ہوئی، اب بچہ نکالنے کی کوشش کریں تو نکلے نہیں۔ ویکیوم تھا نہیں تھک کے فورسیپس لگا کر بچہ نکالا، اس کھینچا تانی میں ایک چمچ پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر چھوٹا سا زخم بنا گیا۔

ہم بتا چکے ہیں کہ زچگی میں کبھی بھی کوئی بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے لیکن تجربہ کار ہاتھوں میں اس کا احتمال کم رہ جاتا ہے۔ جیسے ڈیزائنر درزی سے غلطی ہونے کا چانس نہ ہونے کے برابر اور اگر ہو تو شرمندگی اپنے آپ سے کہ کیا سیکھا ہنر۔ ایسے ہی ہمیں بھی ہوئی گو کہ تب ہاتھ میں ایسی ہنر کاری نہیں اتری تھی جو برسہا برس کے تجربے سے بعد میں عطا ہوئی۔ لیکن اس چھوٹی سی پیچیدگی کے بعد بھی ہم اتنے افسردہ ہوئے کہ آپریشن فیس لینے سے ہی انکار کر دیا اور ساتھ ہی کانوں کو ہاتھ لگائے کہ تب تک پرائیویٹ پریکٹس کا نام نہیں لیں گے جب تک ۔ ۔ ۔ سمجھ جائیے نا اب اپنے منہ سے کیا کہیں!

مزید پڑھیے: چھلاوہ حمل!

اسی لیے ہم سب ڈاکٹرز کو نصیحت کرتے ہیں کہ انسانی جان کے ساتھ ہوئی غلطی کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔ اس میدان میں اس وقت تک مت اترنا جب تک سارے پیچ وخم سے واقف نہ ہوجاؤ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اوزاروں سے ڈیلیوری فورسیپس فورسیپس ڈیلیوری فورسیپس زخم نومولود اور فورسیپس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اوزاروں سے ڈیلیوری فورسیپس فورسیپس زخم جاتا ہے زچگی کے کے لیے بچے کے

پڑھیں:

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کسی شاعر نے توکہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔

پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)

 شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔

شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔

 ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔

 اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔

پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔

 گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔

 بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟

 اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔

انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟

امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔

پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔

اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟

 امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔

 تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا

اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔

 ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔

 ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
  • ایک قدامت پسند اور غیر روایتی پوپ کا انتقال
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • وزیر مملکت کی گاڑی پر حملہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے ضلعی صدر زیر حراست
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی پر حملہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے ضلعی صدر گرفتار
  • وزیر مملکت کھیئل داس کی گاڑی پر حملہ؛ سندھ ترقی پسند پارٹی کے ضلعی صدر زیر حراست
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے