اسلام ٹائمز: قابلِ کنٹرول داخلی انتشار ایک پرکشش مگر انتہائی خطرناک حکمتِ عملی ہے۔ اگرچہ یہ بعض مواقع پر وقتی فائدہ دے سکتی ہے، مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اکثر یہ پالیسی بیک فائر کر جاتی ہے اور عدم استحکام کے طویل سلسلے کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان کا افغان جہاد میں کردار اور بلوچستان میں اس حکمتِ عملی کا ممکنہ اعادہ اس حقیقت کا انتباہ ہے کہ جو ریاستیں داخلی انتشار کو ایک اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، وہ اکثر خود بھی اسکے اثرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نازی جرمنی سے لیکر سوویت یونین تک اور امریکہ سے لیکر مشرقِ وسطیٰ تک، جو ریاستیں داخلی بدامنی کو ہتھیار بناتی ہیں، وہ بالآخر خود اس کے نتائج بھگتتی ہیں۔ تحریر: ثقلین امام واسطی

تاریخ گواہ ہے کہ ریاستیں بعض اوقات داخلی عدم استحکام خود دانستاً پیدا کرتی ہیں اور پھر اسے اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ “قابلِ کنٹرول داخلی انتشار” (controlled internal destabilization) کی یہ حکمتِ عملی ایک مخصوص طریقے سے اندرونی بدامنی کو ہوا دینے یا برقرار رکھنے کے لیے تشکیل دی جاتی ہے، تاکہ اس کے اثرات “سپل اوور” (spillover) ہو کر پڑوسی ممالک یا دیگر خطوں تک پھیلیں۔ اس کا مقصد حریف ریاستوں یا بعض اوقات دوست ریاستوں کو بھی کمزور کرنا، متاثر کرنا، فوجی کارروائیوں کا جواز فراہم کرنا یا سفارتی سطح پر فائدے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ریاست اگر منظم داخلی انتشار کی حکمت عملی اپنا رہی ہو تو وہ دانستہ طور پر بدامنی کو اس حد تک بڑھنے دیتی ہے کہ وہ مکمل قابو سے باہر نہ ہو۔ یہ حکمت عملی فوجی ردعمل میں تاخیر، شدت پسندی کو ہمسایہ ممالک میں پھیلنے دینے اور خفیہ طور پر مخصوص گروہوں کی پشت پناہی کے باوجود مداخلت سے انکار پر مشتمل ہوتی ہے۔

اس انتشار کو جواز بنا کر سخت اقدامات کیے جاتے ہیں، فوجی کنٹرول مضبوط ہوتا ہے اور جغرافیائی سیاست کے تحت اتحاد تبدیل کیے جاتے ہیں۔ خفیہ معلومات کے انکشافات یا ماضی کے واقعات ایسی اسٹریٹیجی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ جب انتشار کا فائدہ اس کے خاتمے سے زیادہ ہو، تو شک کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان پر بھی الزام لگتا رہا ہے کہ وہ، بعض اوقات امریکہ کے ساتھ مل کر، اس حکمتِ عملی کو سویت یونین کے خلاف افغان جہاد کو پھیلانے کے لیے اپناتا رہا ہے۔ سرد جنگ کے آغاز ہی سے پاکستان سویت یونین کے خلاف مغربی طاقتوں کا ذیلی حلیف (client state) بن گیا تھا۔ کوئی بعید نہیں کہ یہ اسٹریٹیجی آج بھی استعمال ہو رہی ہو۔ آج بلوچستان میں جاری شورش اور بدامنی کے حوالے سے کئی مبصرین سوچ رہے ہیں کہ آیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دانستہ طور پر اس خطے میں بے چینی (insurgency) برقرار رکھے ہوئے ہے۔

اگر ایسا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی بلکہ 1980ء کی دہائی کے افغان جہاد کا تسلسل ہوگا، جب پاکستان نے امریکی اور سعودی حمایت کے ساتھ مجاہدین کی سرپرستی کی، تاکہ سوویت یونین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ تاہم بعد میں یہی حکمتِ عملی طالبان کے ظہور اور پورے خطے میں طویل مدتی عدم استحکام کی وجہ بنی جس کی قیمت پاکستان آج تک چُکا رہا ہے۔ یہ مضمون تاریخ میں “قابلِ کنٹرول داخلی انتشار” (controlled internal destabilization) کے بارے میں ہے، اس کے قلیل مدتی فوائد اور طویل مدتی خطرات۔۔۔۔۔ خصوصاً بیک فائر یعنی خود اپنے خلاف استعمال ہونے کے خدشے۔۔۔۔ پر بحث کرتا ہے۔

قابلِ کنٹرول داخلی انتشار کی حکمتِ عملی کیسے کام کرتی ہے؟
یہ حکمتِ عملی کسی ریاست کے مکمل انہدام کے برعکس ایک مخصوص انداز میں عدم استحکام کو برقرار رکھنے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے بنیادی عناصر درج ذیل ہیں:
1۔ منظم مگر کنٹرولڈ داخلی بدامنی۔۔۔۔ بدامنی کو مکمل انارکی میں تبدیل ہونے سے روکا جاتا ہے، لیکن مکمل استحکام بھی نہیں آنے دیا جاتا۔
2۔ سرحد پار اسٹریٹیجک اثرات۔۔۔۔ اس عدم استحکام کے اثرات کو پڑوسی ممالک تک پھیلایا (spillover) ہونے دیا جاتا ہے، تاکہ انہیں سیاسی یا معاشی مشکلات میں مبتلا کیا جا سکے۔
3۔ سفارتی اور جنگی چالوں میں فائدہ۔۔۔۔ اس صورتِ حال کو مذاکرات میں دباؤ ڈالنے یا فوجی مداخلت کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
4۔ ضروری نہیں کہ اس اسٹریٹیجی کو ایک ملک اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی ملک نے اس اسٹریٹیجی کو کلائینٹ سٹیٹ (ذیلی ریاست) کے طور پر کسی بڑی طاقت کے لیے استعمال کیا ہو، جیسا کہ پاکستان کا افغان جہاد میں کردار۔

یہ حکمتِ عملی خاص طور پر ان مخالفین کے خلاف استعمال کی جاتی ہے، جو علاقائی استحکام پر انحصار کرتے ہیں۔ یہاں تاریخ سے ایسے متعدد واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ کنٹرولڈ داخلی عدم استحکام کی حکمت عملی اُن خطوں میں کامیاب ہوتی ہے، جہاں سرحدی علاقوں میں ایک یا زیادہ قومیتی گروہ دو یا دو سے زیادہ ریاستوں میں بٹے ہوئے ہوں۔۔۔۔ یہ مسئلہ خاص طور پر اُن ممالک میں پایا جاتا ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آئے یا آزاد ہوئے۔ یہ نئی قائم شدہ سرحدیں اکثر نسلی، لسانی یا قبائلی حقیقتوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں، جس کے نتیجے میں ایسے علاقے وجود میں آتے ہیں، جو استحصال کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔

ایسی اسٹریٹیجی اختیار کرنے والی ریاستیں ان تقسیموں کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اپنی سرحدوں میں محدود بے چینی کو برداشت کرتی ہیں اور اس کے اثرات کو ہمسایہ ممالک کی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ حربہ نہ صرف داخلی کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے بلکہ علاقائی طاقت کے توازن میں اثر و رسوخ بھی پیدا کرتا ہے، جس سے یہ جیوپولیٹیکل حربوں میں ایک طاقتور اور انتہائی غیر مستحکم ہتھیار بن جاتا ہے۔

تاریخی مثالیں
1۔ افغان جہاد اور بلوچستان میں ممکنہ تکرار (1980ء تا حال)
1980ء کی دہائی میں پاکستان نے امریکی اور سعودی حمایت سے افغان مجاہدین کو منظم کیا، تاکہ سوویت اثر و رسوخ کو روکا جا سکے۔ اگرچہ یہ حکمتِ عملی ابتدا میں پاکستان کے حق میں رہی، بہت زیادہ مالی امداد ملی، ڈرگ ٹریفکنگ سے بہت سارے افسران راتوں رات ارب پتی ہوگئے، مگر بعد میں طالبان جیسے عسکریت پسند گروہوں کی تشکیل اور خطے میں مسلسل عدم استحکام کا سبب بنی۔ آج اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اسی حکمتِ عملی کو بلوچستان میں دہرا رہا ہے۔ وہاں بیک وقت شورش اور انسدادِ شورش کی کارروائیاں چل رہی ہیں، جس سے ایران اور افغانستان جیسے ہمسایہ ممالک مستقل طور پر سکیورٹی چیلنجز میں الجھے رہتے ہیں، جبکہ پاکستان کو اپنی فوجی پالیسیوں کو مزید جواز دینے کا موقع ملتا ہے۔

پاکستان اور ایران کی سرحد کے معاملے میں، اگرچہ دونوں ممالک سرکاری سطح پر تعاون کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاکستان آج بھی امریکہ کی مالی معاونت پر انحصار کرتا ہے، جس میں آئی ایم ایف کے قرضے، مغربی ممالک کی مارکیٹوں تک رسائی اور سعودی عرب سے ترسیلات زر شامل ہیں۔ اس پس منظر میں، پاکستان اور ایران میں بالترتیب علیحدگی پسند تحریکوں اور مذہبی-نسلی گروپوں کے درمیان تعاون اور اس سے جنم لینے والی دہشت گردی کے خطرات دونوں ممالک کے درمیان مستقل طور پر عدم اعتماد، متنازعہ الزامات، سرحدی جھڑپوں اور حالیہ فوجی حملوں اور جوابی حملوں کا سبب بنے ہیں۔

یہاں جنوری 2012ء میں فارن پالیسی میگیزین کے ایک تحقیقی رپورٹ “فالز فلیگ” (False Flag) کو بھی ایک مثال کے طور پر یاد رکھنا چاہیئے، جب اسرائیل پاکستان کی سرزمین سے ایران کے خلاف دہشت گردی کر رہا تھا۔ بلوچستان کی شورش کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جو بظاہر چین کی دوست ہے اور عوامی حمایت کی وجہ سے سی پیک (CPEC) کی مخالفت نہیں کرسکتی ہے، لیکن امریکہ کے اشارے پر ایک ایسی شورش کو معکوس (inverse) طریقے سے فروغ دے سکتی ہے، جس میں ریاستی سکیورٹی بظاہر تو عسکری پسندوں سے لڑتی نظر آئے گی، مگر نقصان سی پیک کو پہنچ رہا ہوگا۔

2۔ نازی جرمنی کی چیکوسلواکیہ کے خلاف حکمتِ عملی (1930ء کی دہائی)
نازی جرمنی نے چیکوسلواکیہ میں سوڈیٹن جرمن نسل کے لوگوں کی شکایات کو ہوا دی، ان کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور خفیہ طور پر شورش کو فروغ دیا۔ بعد میں اسی بے چینی کو بنیاد بنا کر ہٹلر نے سوڈیٹن لینڈ پر قبضے کا مطالبہ کیا۔ اس حکمتِ عملی نے چیکوسلواکیہ کو داخلی طور پر کمزور کر دیا اور آخرکار اس کی مکمل تباہی کی راہ ہموار کی۔ لیکن اس چال کا طویل مدتی نتیجہ دوسری جنگِ عظیم کی صورت میں نکلا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی سازشیں اکثر قابو سے باہر ہو جاتی ہیں۔

3۔ سوویت یونین کی مشرقی یورپ میں عدم استحکام کی پالیسی (1940ء–1991ء)
سوویت یونین نے مشرقی یورپ میں پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک میں شورش کو بعض اوقات قابو میں رکھا اور بعض اوقات ہوا دی، تاکہ انہیں مکمل خود مختاری حاصل نہ ہوسکے اور سوویت اثر و رسوخ قائم رہے۔ لیکن جب یہ حکمتِ عملی ناکام ہوئی، تو 1989ء میں ان ریاستوں نے بغاوت کر دی اور بالآخر 1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہوگیا۔

4۔ فرانس کی الجزائر میں انقلابی جدوجہد کو قابو میں رکھنے کی کوشش (1954ء–1962ء)
الجزائر کی آزادی کی جدوجہد کے دوران فرانس نے جان بوجھ کر وہاں ایک محدود انتشار قائم رکھا، تاکہ مراکش اور تیونس کو NLF (نیشنل لبریشن فرنٹ) کی کھلی حمایت سے باز رکھا جا سکے۔ تاہم، یہ حکمتِ عملی ناکام رہی اور فرانس کو بالآخر الجزائر سے نکلنا پڑا۔

5۔ ترکی کی کرد پالیسی اور اسکے عراق و شام پر اثرات (1980ء تا حال)
ترکی کئی دہائیوں سے کرد عسکریت پسندی کے خلاف مختلف پالیسیوں پر عمل کر رہا ہے، جن میں بعض اوقات شورش کو جان بوجھ کر جاری رکھنا بھی شامل ہے۔ اس پالیسی کا مقصد عراق اور شام پر سیاسی و فوجی دباؤ قائم رکھنا ہے، تاکہ ترکی اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ تاہم، یہ تنازعہ اب بھی حل نہیں ہوسکا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ داخلی انتشار کو قابو میں رکھنے کی حکمتِ عملی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی۔

بیک فائر (backfire) اور قابو سے باہر ہوتی شورش کے خطرات
اگرچہ یہ حکمتِ عملی مختصر مدت میں فائدہ دے سکتی ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ اکثر اوقات یہ ریاستوں کے لیے بیک فائر کر جاتی ہے۔ اس کے اہم خطرات درج ذیل ہیں:
1۔ طویل مدتی عدم استحکام۔۔۔۔ ایک بار جب انتشار کی آگ بھڑک اٹھے تو اسے قابو میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں 1980ء کی دہائی کی پالیسی کا نتیجہ آج بھی نظر آرہا ہے، جہاں عسکریت پسند گروہ قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔
2۔ غیر ریاستی عناصر کی طاقت میں اضافہ۔۔۔۔۔ اکثر ریاستیں سمجھتی ہیں کہ وہ عسکری گروہوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرسکتی ہیں، مگر تاریخ دکھاتی ہے کہ یہ گروہ جلد یا بدیر خود مختار حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
3۔ سفارتی تنہائی اور عالمی سطح پر بدنامی۔۔۔۔ ایسی حکمتِ عملی اپنانے والی ریاستوں کو عالمی سطح پر تنقید اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
4۔ علاقائی جنگ کے خطرات۔۔۔۔۔ جب داخلی انتشار سرحد پار اثر انداز ہونے لگے، تو یہ علاقائی جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں مختلف ممالک نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی، جس کے نتیجے میں کئی ممالک تباہ ہوچکے ہیں۔

یہ ایک خطرناک جغرافیائی سیاسی جُوا ہے
قابلِ کنٹرول داخلی انتشار ایک پرکشش مگر انتہائی خطرناک حکمتِ عملی ہے۔ اگرچہ یہ بعض مواقع پر وقتی فائدہ دے سکتی ہے، مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اکثر یہ پالیسی بیک فائر کر جاتی ہے اور عدم استحکام کے طویل سلسلے کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان کا افغان جہاد میں کردار اور بلوچستان میں اس حکمتِ عملی کا ممکنہ اعادہ اس حقیقت کا انتباہ ہے کہ جو ریاستیں داخلی انتشار کو ایک اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، وہ اکثر خود بھی اس کے اثرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نازی جرمنی سے لے کر سوویت یونین تک اور امریکہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک، جو ریاستیں داخلی بدامنی کو ہتھیار بناتی ہیں، وہ بالآخر خود اس کے نتائج بھگتتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کنٹرول داخلی انتشار استعمال کرتی ہیں جو ریاستیں داخلی بلوچستان میں قابو سے باہر عدم استحکام کہ پاکستان افغان جہاد دے سکتی ہے بعض اوقات طویل مدتی انتشار کو بدامنی کو مگر تاریخ کے طور پر کی دہائی کے اثرات بیک فائر جاتا ہے جاتی ہے کے خلاف ہوتا ہے کرتا ہے شورش کو کی حکمت یہ حکمت کے اثر جا سکے رہا ہے ہیں کہ کیا جا کے لیے ہے اور

پڑھیں:

افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )افغان شہریوں کی واپسی کے دوران شکایات کے ازالے کیلئے وزارت داخلہ میں کنٹرول روم قائم کردیا گیا۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے کابل میں اعلان کے بعد کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق کنٹرول روم نیشنل کرائسس اینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سیل میں قائم کیا گیا جو 24 گھنٹے افغان شہریوں کی معاونت کے لیے کام کرے گا۔
اسحاق ڈار نے افغان عبوری وزیرخارجہ امیرخان متقی سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق امیرخان نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی ہے۔

او آئی سی کے نمائندہ خصوصی کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد کا مظفرآباد، آزاد جموں و کشمیر کا دورہ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • چین ہمارا انتہائی قابل اعتماد دوست اور اسٹریٹجک شراکت دار ہے: وزیراعظم
  • سندھ اور پنجاب بارڈر پر کینالز کے خلاف دھرنا، 15 لاکھ ڈالرز کا مال خراب ہونے کا خدشہ
  • افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم
  • انتہا پسندی کے خلاف نوجوانوں کی مؤثر حکمت عملی، جامعہ کراچی میں ورکشاپ کا انعقاد
  • مربوط حکمت عملی اور مشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے، وزیراعظم
  • مربوط حکمت عملی اورمشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے، وزیراعظم
  • مربوط حکمت عملی اورمشترکہ کاوشوں سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے: وزیراعظم
  • مسیحی برادری کا پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قابل تحسین کردار ہے: سرفراز بگٹی
  • دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی
  • پاکستان یورپی یونین کیساتھ قابل اعتماد دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ مریم نواز