اسلام آباد:

ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں تمباکو سے سالانہ 770 ارب روپے کا معاشی نقصان ہو رہا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تمباکو ٹیکس کو محض ریونیو کا ذریعہ نہیں بلکہ صحت عامہ کی پالیسی کے طور پر اپنانے کا مشورہ دے دیا۔

اسلام آباد میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام تمباکو ٹیکسیشن پر منعقدہ سیمینار میں پاکستان کے پہلے تمباکو کنٹرول نالج ہب کا افتتاح کیا گیا اور ماہرین نے ڈیٹا پر مبنی پالیسی سازی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تمباکو کنٹرول کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے خطاب میں تمباکو کنٹرول پالیسی پر بحث کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ کو پیش کی گئی ہر سفارش پالیسی اصلاحات کے امکانات کو بڑھاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی اور اس کے شراکت دار ادارے تمباکو کنٹرول پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور نالج ہب اس سمت میں ایک اہم پیش رفت ہے، یہ نالج ہب تحقیقی مواد، اعداد و شمار اور تجزیاتی رپورٹس کو یکجا کر کے پالیسی سازوں، محققین اور سول سوسائٹی کو دے گا تاکہ تمباکو کنٹرول کے لئے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔

ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر وسیم افتخار جنجوعہ نے بتایا کہ پاکستان اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن گیا ہے جہاں پہلے ہی بھارت، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں نو نالج ہب کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے تمباکو کنٹرول کے لیے ایک مربوط پالیسی پلیٹ فارم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں تمباکو کنٹرول کے لیے مستند ڈیٹا اور تحقیقی شواہد یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے کہا کہ تمباکو ٹیکس کو آمدنی بڑھانے کے بجائے عوامی صحت کے تحفظ کی پالیسی کے طور پر اپنانا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایف بی آر تمباکو ٹیکسیشن کو ایک واضح حکمت عملی کے طور پر تسلیم کرے۔

ڈاکٹر وسیم سلیم نے کہا کہ جس طرح شوگر سویٹینڈ بیوریجز پر ٹیکس صحت عامہ کا اقدام ہے اسی طرح تمباکو پر ٹیکس بھی ایک مؤ ثر پالیسی ہے، تمباکو کے باعث 770 ارب روپے سالانہ معاشی نقصان اور جی ڈی پی کے 1.

2 فیصد نقصان پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تین گنا اضافے سے سگریٹ کی مجموعی کھپت میں 19.2 فیصد کمی واقع ہوئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زیادہ ٹیکس عائد کرنے سے تمباکو نوشی میں کمی آتی ہے۔

نیشنل ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے سربراہ برائے تمباکو کنٹرول ڈاکٹر مطیع الرحمان نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمباکو پیدا کرنے والے کسانوں کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائے تاکہ وہ متبادل فصلوں کی طرف جا سکیں۔

ایس پی ڈی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر آصف اقبال نے کہا کہ غیر قانونی تجارت ایک سنگین چیلنج ہے جس کی کل غیر قانونی تجارت 33 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت پاکستان کی ڈیزیز کنٹرول کلسٹر لیڈ ڈاکٹر نارہ نے کہا کہ نالج ہب تمباکو ٹیکسیشن کی پالیسی پر بحث کو مزید تقویت دے گا، اس کے ذریعے تمباکو ٹیکسیشن کے صحت اور معیشت پر اثرات کی دستاویزی تحقیق سامنے آئے گی، جو پاکستان اور عالمی سطح پر تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد دے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایس ڈی پی آئی کہ پاکستان میں تمباکو نے کہا کہ انہوں نے نالج ہب

پڑھیں:

پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ

لاہور:

پاکستان میں پیچیدہ ٹیکس نظام اور ہر سطح پر رشوت خوری غیر دستاویزی معیشت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.

جب کوئی بھی کاروباری شخص اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانا چاہتا ہے تو اس کو بار بار دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور پھر ہر سطح پر رشوت دینی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے تاجر اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانے میں دلچسپی نہیں لیتے. 

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں غیر رسمی معیشت کا حجم رسمی معیشت سے ڈبل ہے، جو کہ تقریبا 400 سے 500 ارب ڈالر بنتا ہے، ریئل اسٹیٹ میں اس کا حجم تقریبا 70 فیصد تک ہے.

مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی

چھوٹے کاروبار اور ریٹیل دکانوں کا نمبر دوسرا ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI) کے ایک حالیہ مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کا 40% ریٹیل سیکٹر غیر رسمی طور پر کام کرتا ہے، جس سے حکومت کو سالانہ 1.5 ٹریلین روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے.

چھوٹے کارخانے بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے قوانین کو آسان بنانا، چھوٹے کاروباروں کے لیے شرحوں کو کم کرنا، اور عوامی خدمات کو بہتر بنانا لوگوں کو رسمی معیشت میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتا ہے. 

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی ایف بی آر اور وزرا کو 34 ارب 50 کروڑ روپے کی ریکوری پر شاباش

ماہرین کے مطابق جب تک کہ رسمی نظام زیادہ قابل رسائی اور قابل اعتماد نہیں ہو جاتا، غیر رسمی معیشت ترقی کرتی رہے گی، جس سے پاکستان کم آمدنی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے چکر میں پھنسا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • یوتھ پالیسی کے تحت نوجوانوں کواقتدار کے عمل میں  شریک کیا جائے گا،امیرمقام
  • افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم
  • پاکستان کے مختلف شہروں میں سیمنٹ کی قیمتوں میں ملا جلا رجحان
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • طلال چودھری کو مشورہ ہے وہ نون لیگ کی تنظیم سازی پر توجہ دیں، عمر ایوب
  • صوابی، ژالہ باری، تیز بارش، آسمانی بجلی گرنے سے کشتی بان جاں بحق، 2 افراد زخمی
  • سوشل میڈیا سے خوفزدہ لوگ اپنے غصے کو ٹھنڈا کریں، عارف علوی کا مشورہ
  • سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے پالیسی سازی کرینگے، سرفراز بگٹی
  • غیرملکی فوڈ چین ٹیکس چوری نہیں کرتیں، طلال چوہدری