Daily Ausaf:
2025-04-22@07:06:07 GMT

خالی ہاتھ

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

سہراب سائیکل کے بانی اور مالک شیخ اکرم صاحب ارب پتی پاکستانی تھے جو بے بسی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں چند روز قبل دنیا سے رخصت ہوئے۔ کہا جاتا ہے ان کی میت کئی دنوں تک ہسپتال میں بے گوروکفن پڑی رہی مگر اسے وصول کرنے کے لئے وارثین نہیں پہنچے۔ اپنی موت سے چار دن پہلے تک وہ ڈاکٹروں سے مسلسل التجا کرتے رہے کہ وہ نصیحت لکھنے کے لئے اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہیں مگر تمام ڈاکٹر اس کی درخواست کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ ڈاکٹروں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس کی اولاد کو اس بارے آگاہ کرتے رہے تھے مگر اس کے بچوں کو مرنے سے پہلے اپنے باپ کو دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ وہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ شیخ اکرم انتہائی نیک دل انسان تھے وہ یتیم بچیوں کی شادی کرواتے تھے اور درجنوں غریب گھروں کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس حالت میں ہیں۔ آخرکار یہ نیک دل باپ اپنی نصیحت لکھے اور اولاد کو آخری بار دیکھے بغیر آنکھوں میں آنسوئوں کی سسکیاں بھرتے بھرتے موت کے منہ میں چلا گیا، اور جن بچوں کے لئے ورثے میں باپ نے اربوں روپے کی جائیداد چھوڑی تھی وہ اپنے باپ کی آنکھوں پر آخری بار ہاتھ رکھنے کے لئے بھی میسر نہیں تھے۔
یہ حسرت بھری اور المناک موت ہماری ہر دوسری المیہ کہانی کا نتیجہ ہے جس کا آغاز غربت اور انجام امارت کی چاردیواری کے حبس میں ہوتا ہے۔ جب تک انسان کی صحت ہو اور دولت بھی ہو تو اس کے گرد درجنوں سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ لیکن کسی امیر آدمی کے مرنے کا جونہی وقت قریب آتا ہے تو اس کی اولاد اور رشتہ دار مرنے والے کو بھول کر اس کی جائیداد کا بٹوارہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں انسان کے رشتوں اور تعلقات کی حد فاصل بستر مرگ ہے جس پر پڑا انسان ساری دنیا کی دولت رکھنے کے باوجود بھی کسی کو اپنے پاس بلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جتنا بھی پیارا ہو مرنے والے کے ساتھ جانے کو تیار ہوتا ہے۔
ہمارے سرمایہ داری زدہ معاشرے میں تو صورتحال اور بھی بدتر ہے کہ جہاں اخلاقی اقدار اور رکھ رکھائو کو بھی رسم و رواج اور دکھاوے میں بدل دیا گیا ہے۔ آپ شہروں یا دیہاتوں میں میت والے گھروں میں جا کر دیکھ لیں کہ ابھی میت گھر میں پڑی ہوتی ہے اور لواحقین اسے جلدی دفنانے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ اس سے بدبو نہ آنے لگے مگر سوگواران اور اہل خانہ مہمانوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایسا نہ کیا جائے تو افسوس کرنے کے لئے آئے ہوئے دوست احباب طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں اور طعنے تک دیتے ہیں کہ میت والے گھر میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ وہ ڈھنگ سے مہمانوں کو کھلا پلا سکیں۔ بہت سی جگہوں پر اس مد میں سوگ کو شادی کی طرح منانے کے خلاف انتظامات کیے گئے ہیں جہاں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو یہ سارا انتظام و انصرام کرتی ہیں۔
لیکن اصل بات یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی کتنا امیر ہے یا وہ کس بری طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس معاملے میں ہمارا اصل مسئلہ ہمارے ذہنی رجحان (مائنڈ سیٹ) کا ہے جس کی روشنی میں ہم لوگوں کے درمیان غربت اور امارت کے تفاوت کی لکیر کھینچتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مقابلے میں ایسی طبقاتی سوچ یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا مفقود ہے۔ یہ تہذیب یافتہ ممالک اسی وجہ سے ’’سوشل سٹیٹس‘‘ کہلاتی ہیں کہ وہاں کوئی غریب ہے یا نان نفقہ سے تنگ ہے تو ان ممالک کی حکومتیں ایسے شہریوں کو عزت کے ساتھ سرکاری گھر اور اسے چلانے کے لیئے ہفتہ وار رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ وہاں ایک دوسرے کو کوئی یہ الزام نہیں دیتا کہ وہ سوشل بینیفٹس پر زندگی کیوں گزار رہا ہے کیونکہ اس طرح کے فوائد لینے والے شہری اپنی وہ رقوم وصول کر رہے ہوتے ہیں جو وہ پہلے ہی حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ان ممالک میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے یا آپ بیمار پڑ جاتے ہیں تو آپ کی تیمارداری اور نگہداشت کے لئے حکومت کے منظور شدہ سوشل ورکر فوری طور پر خدمت کے لئے آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور بعض دفعہ زخم یا بیماری وغیرہ کی صورت میں حکومت آپ کو اتنا کچھ دے دیتی ہے کہ اتنا آپ نے عمر بھر نہیں کمایا ہوتا ہے۔
سکندر اعظم کے بارے ایک محاورہ بڑا مشہور ہے کہ، ’’سکندر جب چلا جہاں سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔‘‘ انسان پوری کائنات کا مالک بھی بن جائے مگر وہ مرتے وقت اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتا۔ اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو زیادہ دولت جمع کرنے کا لالچ ہوتا ہے اور نہ کم پیسہ ہونے کی وجہ سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہمارے ایشیائی لوگ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ کا پاسپورٹ لینے کے لئے اسی معیار زندگی کی وجہ سے جدوجہد کرتے ہیں۔ دولت کی ہوس بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ہمارے معاشرے میں شیخ اکرم جیسی امیرانہ مگر تکلیف دہ اذیت تب محسوس ہوتی ہے جب اتنا کچھ کما کر بھی آخر میں انسان اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کے بلانے پر اس کی اولاد تک اس کے پاس آنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس لئے زندگی میں اتنا ہی کمائیں جس سے آپ کسی کے محتاج نہ ہوں اور آپ کی پہچان بن جائے یا اسے آپ کی اولاد جتنا ہضم کر سکے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ دولت کے انبار لگانے اور جائیدادیں بنانے کی بجائے اپنا کمایا ضرورت مندوں اور دوستوں پر خرچ کریں تاکہ ایسی دولت کو سخاوت اور نیک اعمال کی شکل میں اپنے ساتھ اوپر لے جا سکیں۔
یہ پہلی کہانی نہیں جو ایک مرنے والے دولت مند آدمی کے ساتھ پیش آئی ہے۔ پاکستان کی بہت سی امیر فیملیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں بلکہ ورثے میں ملنے والی زمینوں اور جائیداد پر بہت زیادہ لڑائیاں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ تہذیبوں کے امیر ترین افراد بھی آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ وہ سیکورٹی عملہ کے بغیر لائن میں لگ کر برگر خریدتے نظر آتے ہیں یا بستر مرگ تک پہنچنے تک وہ اپنی ساری یا آدھی دولت چیرٹی کے نام کر جاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جاتے ہیں کی اولاد ہوتا ہے کے ساتھ ہوتی ہے کے لئے ہے اور

پڑھیں:

’باپ تو سپر مین ہوتا ہے‘، بچے کو گرمی سے بچانے کے لیے باپ نے سیٹ پر ہاتھ رکھ لیے، ویڈیو وائرل

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں موٹر سائیکل پر سوار ایک شخص کو کڑکتی دھوپ میں سفر کرتے دیکھا جا سکتا ہے، ویڈیو پوسٹ کرنے والے صارف کا کہنا ہے کہ یہ شخص اسکول سے چھٹی کے بعد اپنے بچوں کو لینے آیا ہے جو خود گرمی میں موٹر سائکل پر بیٹھا ہے لیکن پچھلی سیٹ پر قیمص پھیلا کر ہاتھ رکھ دیے تاکہ جب اس کا بچہ اس سیٹ پر بیٹھے تو وہ گرم نہ ہو۔

باپ سراں دے تاج محمد pic.twitter.com/aban5xHyx2

— Ans (@PakForeverIA) April 20, 2025

اس ویڈیو پر صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ پی سی بی کے سابق چیئرمین و کمنٹیٹر رمیز راجہ نے اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا منظر دل پگھلا دیتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ جب کبھی کسی خاندان کو موٹر سائیکل پر ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں تو دل سے بے اختیار ان کی سلامتی کی دعا نکلتی ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ اللہ انہیں جلد ایسی گاڑی عطا کرے جس میں وہ سکون اور آرام سے سفر کر سکیں۔

This melts your heart !
Every time I see a family clinging to each other on a motor cycle, I instinctively pray for their safety and hope they can get a car to sit in comfortably . https://t.co/uRA4naOBq1

— Ramiz Raja (@iramizraja) April 21, 2025

ایک صارف نے ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ باپ تو سپر مین ہوتا ہے۔

Father is Super Man. https://t.co/WUoazvGTxP

— Humayun Khan (@EngrHumayun10) April 21, 2025

عادل خان یوسفزئی نے کہا کہ پاکستان کے ایلیٹ کبھی نہی چاہتے کہ ان کے پاس کار ہے تو ایک عام آدمی بھی کار خرید سکے جو کار ہمارے پڑوس انڈیا، چائنہ اور افغانستان میں 3 لاکھ روپے کی ملتی ہے وہی کار پاکستان میں 28 لاکھ کی ملتی ہے تو کیا صرف دعا سے غریب کار خرید سکتا ہے؟

سر جی پاکستان کے ایلیٹ کبھی نہی چاہتے کہ ان کے پاس کار ہے تو ایک عام آدمی بھی کار خرید سکے
جو کار ہمارے پڑوس انڈیا، چاینہ،افغانستان میں 3 لاکھ روپے کی ملتی ہے وہی کار پاکستان میں 28 لاکھ کی ملتی ہے تو کیا صرف دعا سے غریب کار خرید سکتا ہے؟

— ADIL KHAN YOUSAFZAI (@kaddiwall3) April 21, 2025

ایک ایکس صارف نے رمیز راجہ کو کہا کہ آپ انہیں ایک گاڑی کیوں نہیں خرید کر دیتے۔ آپ کے پاس جتنا پیسہ ہے اس کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہونی چاہیے۔

Why don’t you buy them one? Surely that isn’t a big deal with the kind of money you have.

— Siddhartha Das (@sidharthone) April 21, 2025

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رمیز راجہ کراچی گرمی کی شدت

متعلقہ مضامین

  • ڈریں اس دن سے جب اڈیالہ جیل کا دروازہ ٹوٹ گیا تو معاملات کسی کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے، اعتزازاحسن 
  • جان سینا ریکارڈ 17 ویں بار ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن بن گئے
  • ’باپ تو سپر مین ہوتا ہے‘، بچے کو گرمی سے بچانے کے لیے باپ نے سیٹ پر ہاتھ رکھ لیے، ویڈیو وائرل
  • واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ
  • امریکہ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر اندھا دھند محصولات عائد کر رہا ہے، چینی وزارت تجارت
  • دو اتحادی جماعتوںکی پنجاب میں بیٹھک، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں پاؤر شیئرنگ پر گفتگو ، ساتھ چلنے پر اتفاق
  • میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ دریافت، سائنسدانوں کی حیران کن تحقیق سامنے آگئی
  • ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا مسائل بات چیت سے حل کرنے اور ساتھ چلنے پر اتفاق
  • کانپور میں انوکھا واقعہ: دلہن شادی سے قبل فرار، دولہا بارات کے ساتھ خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا
  • تحریک انصاف اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی، نامور صحافی کا انکشاف