بین الاقوامی سلامتی کے لیے گرین لینڈ پر امریکی کنٹرول ضروری، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے سے کہا کہ امریکہ کو گرین لینڈ پر کنٹرول کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں روٹے کے ساتھ بات چیت کے دوران، ٹرمپ نے آرکٹک جزیرے کی اسٹریٹیجک اہمیت پر ایک بار پھر زور دیا۔
گرین لینڈ: پچاسی فیصد لوگ امریکہ میں شامل ہونے کے خلاف
گرین لینڈ کے ممکنہ الحاق کے منصوبوں کے بارے میں ایک رپورٹر کے سوال پر ٹرمپ نے کہا، "ٹھیک ہے، مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہو جائے گا۔
"روٹے کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اس سے پہلے اس پر زیادہ غور نہیں کیا تھا لیکن اب ایک ایسا شخص موجود ہے جو امریکہ کو گرین لینڈ کے ساتھ الحاق کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے روٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا،"مارک، آپ تو جانتے ہیں کہ ہمیں اس کی صرف سکیورٹی کے لیے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے بھی ضرورت ہے۔
" ٹرمپ نے روٹے کو بتایا، "ہم آپ سے اس پر بات کریں گے۔"گرین لینڈ: ٹرمپ کی دھمکی پر جرمنی اور فرانس کی سخت تنقید
روٹے کا کہنا تھا کہ وہ اس بحث سے باہر رہنا چاہتے ہیں کہ آیا اس جزیرے کو امریکہ کا حصہ بننا چاہیے اور وہ "نیٹو کو اس میں ملوث کرنا نہیں چاہتے۔"
گرین لینڈ پر کنٹرول وسائل سے مالا مال آرکٹک خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بڑھا دے گا، جہاں روس اور چین اپنی موجودگی بڑھا رہے ہیں۔
گرین لینڈ کا کیا کہنا ہے؟گرین لینڈ کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم نے ٹرمپ کے تبصروں کو سختی سے مسترد کر دیا۔
میوٹ ایگیڈ نے جمعرات کو فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا، "امریکی صدر نے ہمارے ساتھ الحاق کرنے کی اپنی سوچ کا ایک بار پھر ذکر کیا ہے۔ لیکن اب بہت ہو گیا۔"
ایگیڈ نے کہا کہ وہ تقریباً 57,000 لوگوں کے وطن گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کے ٹرمپ کے اعلان کو مشترکہ طور پر مسترد کرنے کے لیے کل جماعتی اجلاس بلانے کی کوشش کریں گے۔
منگل کو گرین لینڈ کے پارلیمانی انتخابات جیتنے والی جزیرے کی کاروبار حامی ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما جینز فریڈرک نیلسن نے بھی ٹرمپ کے تبصروں کو مسترد کر دیا۔
نیلسن نے فیس بک پر لکھا، "ٹرمپ کا بیان نامناسب ہے اور یہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں ایسے حالات میں ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔"
گرین لینڈ سرکاری طور پر ڈنمارک کی بادشاہی سے تعلق رکھتا ہے لیکن 2009 میں اس نے اپنے زیادہ تر اندرونی معاملات پر خود حکمرانی حاصل کر لی۔
یہ جزیرہ مالی طور پر ڈنمارک پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور خارجہ امور اور دفاع ڈنمارک کی حکومت دیکھتے ہیں۔
رائے شماری کے مطابق، گرین لینڈ کے بیشتر باشندے ڈنمارک سے آزادی کے حامی تو ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ الحاق کے نہیں۔
تدوین : صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گرین لینڈ پر گرین لینڈ کے کے لیے
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔