WE News:
2025-04-23@00:24:38 GMT

کون جنتی کون دوزخی؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

ہمارے مذہبی طبقے کی جانب سے غیر مذہبی لوگوں پر لادین یا بے دین کا لیبل بہت آسانی سے چپکا دیا جاتا ہے۔ اور اس شان سے چپکایا جاتا ہے جیسے انہیں بس اسی کام کے لیے ’مبعوث‘ کیا گیا ہو۔ اور یہ ان کی ذمے داری ہو کہ محشر برپا ہونے سے قبل طے کریں کہ کون دیندار ہے اور کون بے دین۔ اس باب میں جرات اس درجے کو پہنچی ہوئی ہے کہ معتوب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خدا کے محشر سے قبل یہ اسی دنیا میں فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ آخرت میں اس کا انجام کیا ہوگا۔ اگر یہ فیصلے ہمیں ہی سنانے ہیں تو پھر خدا اور اس کے محشر کا مصرف کیا ہوگا؟

 لازم ہے کہ ذرا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کے ہاں بے دین کی اصطلاح بالعموم استعمال کن کے لیے ہوتی ہے۔ اگر آپ کلین شیو ہیں، کوٹ پتلون آپ کا پسندیدہ لباس ہے تو ان کے ہاں آپ بے دین ہیں۔ ہاں ایک صورت ایسی ضرور ہے جو آپ کو اس ٹیگ سے بچا سکتی ہے۔ کسی معروف مدرسے کو چندہ دینا شروع کردیجیے اور مہینے میں ایک آدھ بار 8، 10 مولویوں کی دعوت کردیا کیجیے۔ ان 2 کاموں کے بعد آپ بیشک پورا مہینہ مجرے کرائیے، بیواؤں کے پلاٹ قبضہ کیجیے، بھتے لیجیے، شراب کباب کی مجالس کا اہتمام کیجیے، کوئی ٹینشن ہی نہیں۔ اب آپ کو ایسا ٹیگ ملے گا کہ سبحان اللہ۔ آپ کا ذکر مذہبی حلقے میں ’اہل خیر‘ کے ٹائٹل کے ساتھ ہوگا۔ آپ خیر کا مطلب تو جاتے ہی ہوں گے۔ وہی جو شر کے مقابل ہے۔ خیر و شر میں سے خیر والا کیمپ رحمانی کیمپ ہے۔ آپ اس کیمپ کے وی آئی پیز میں شمار ہوں گے۔ یہ ہم محض کہہ نہیں رہے۔ ہم نے اس کیمپ میں تاجی کھوکھر جیسے لوگوں کو بھی اونچی مسندوں پر بچشم خود بیٹھے دیکھا ہے۔ تاجی کھوکھر کتنے اہل خیر تھے یہ آپ کسی بھی پنڈی والے سے پوچھ لیجیے۔

یہ بھی پڑھیں: مہذب اقوام کا مستقبل

ہمارا مذہبی طبقہ جانتا نہیں کہ ان کے اسی دوغلے پن نے ان کے 3 قسم کے مخالفین پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو 5 وقت کے باجماعت نمازی ہیں مگر اپنے امام سے کسی بھی طرح کا دوستانہ تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہر امام کی اقتدا میں جمعے کے حساب سے ہزار 2 ہزار لوگ تو نماز پڑھتے ہی ہیں۔ مگر ان میں سے امام صاحب کے ذاتی دوست 8،10 سے زیادہ نہیں بنتے۔ اس پہلے طبقے کا مولویوں کے معاملے میں رویہ ، یہ ہے کہ یہ ان سے متعلق کوئی اچھی بات کرتے ہیں نہ ہی بری، گویا مکمل لاتعلق۔ بس نماز پڑھی گھر آگئے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو نمازی تو ہے مگر نماز گھر پر ادا کرتا ہے۔  مولوی سے متعلق رویہ اس کا یہ ہے کہ ٹکا کر برا بھلا کہتا ہے، جس کے لیے اب سوشل میڈیا موزوں پلیٹ فارم  ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو کسی بھی طرح کی مذہبی سرگرمی نہیں رکھتا۔ ان کے مسلمان ہونے کا بس تب ہی پتہ چلتا ہے جب یہ فوت ہوجاتے ہیں اور جنازہ مسجد آجاتا ہے۔ یہ طبقہ مولوی ہی نہیں احکام دین کی تضحیک سے بھی گریز نہیں کرتا۔

اگر آپ غور کیجئے تو پہلے دونوں طبقات واضح طور پر مذہبی ہیں۔ جسے فرائض کی فکر ہے اسے غیر مذہبی سمجھنا جہل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن مذہبی طبقے کا ان کے ساتھ بھی رویہ وہی ہے جو تیسرے طبقے سے ہے۔ ان کی تحقیر وہ گویا واجب سمجھتے ہیں۔ اور جب واجب سمجھ لیا تو یہ تحقیر تو ان کے لیے ان کے خیال کے مطابق باعث ثواب بھی ہوگئی۔

تحقیر پر ثواب والے تصور کا معاملہ سمجھنے کے لیے ذرا ایک سادہ سی بات سمجھ لیجیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر چیز میں کٹیگریز ہوتی ہیں۔ پیداوار میں بھی، مصنوعات میں بھی اور انسانی صلاحیتوں میں بھی۔ تگڑا وکیل، مناسب وکیل اور فضول سا وکیل تو سنا ہی ہوگا۔ یقیناً بڑا عالم دین، مناسب سا عالم دین اور ملا بھی سن ہی رکھا ہوگا۔ بعینہ مذہب سے وابستگی و عمل کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی کٹیگریز ہوتی ہیں۔ ان میں متقی، اوسط درجے کا مسلمان اور فاسق ہوتے ہیں۔ گویا مسلمانوں میں پست درجے کی کٹیگری فاسق ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طبقے کی بھی تحقیر و تذلیل کا درس قرآن مجید کی کونسی آیت دیتی ہے ؟ رویوں کے معاملے میں تو قرآن مجید اس حد تک مہربان ہے کہ جب سوال پیدا ہوگیا کہ فاسق چھوڑیے غیر مسلم کے کلمہ تہنیت کے جواب میں کیا کیا جائے؟ تو قرآن نے کہا، اس کا جواب ان کے کلمہ تہنیت سے بھی اچھا دو، یا پھر وہی کلمہ دہرا دو جو انہوں نے استعمال کیا۔ ذرا غور کیجیے، دو آپشنز میں سے پہلی کیا ہے؟ غیر مسلم کے کلمہ تہنیت کے جواب میں اس سے اچھا کلمہ تہنیت استعمال کیجیے۔ جو مذہب غیر مسلم پر بھی آپ کی اخلاقی برتری چاہتا ہے وہ فاسق مسلمان کی تحقیر کا تصور دے سکتا ہے؟

مزید پڑھیے: جھوٹ کو سچ بنانے والے

ہم کسی پچھلے کالم میں عرض کرچکے کہ قرون اولیٰ میں صورتحال یہ تھی کہ مفتوحہ علاقوں میں مسلمان اقلیت تھے اور مقامی غیر مسلم آبادی اکثریت۔ یوں عالم اسلام کا اولین منظر یہ تھا مسلمان حاکم تو تھے مگر اقلیت تھے۔ یہ ان اقلیتی مسلمانوں کا اخلاق یعنی حسن سلوک تھا جس نے بہت جلد پورے عالم اسلام کو مسلم اکثریتی خطہ بھی بنا دیا۔ کیا یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ تب کروڑوں لوگ مسلم اقلیت کے حسن سلوک سے کلمہ پڑھ گئے۔ اور آج حالت یہ ہے کہ کسی مدرسے کا خاکروب بھی اسی مدرسے کے شیخ الاسلام کا سلوک دیکھ کر اسلام قبول نہیں کرتا ؟کیا یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اسلام قبول کرنے کے واقعات عالم اسلام کی حدود سے باہر کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ گورا قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو سال کے اندر اندر کلمہ پڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے اسلام کا سورس اللہ کی کتاب بنی۔ مگر عالم اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ جو پیدائشی مسلمان ہیں وہی ہماری حرکتیں دیکھ کر دین سے بیزار ہو رہے ہیں۔ اور ہم اس تکبر میں مبتلا ہیں کہ دین کے چاروں پلر ہم ہی ہیں۔ یہ جو دنیا میں خیر کے غل غلے ہیں یہ ہمارے ہی دم سے ہیں۔ کونسا خیر بھئی؟ سیٹھ موتی والا کا چندہ؟

مسلمان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس کے 2 ہی لنکس ہیں۔ ایک خدا اور دوسرا اس کی مخلوق۔ محشر میں حساب بس انہی 2 زاویوں سے ہوگا۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔حقوق اللہ کا باب تو بہت ہی مختصر ہے۔ دن میں 5 نمازیں، سال میں 30 روزے، سال میں ایک بار 2 فیصد زکوۃ، زندگی میں ایک حج وہ بھی اگر استطاعت ہو تب۔ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دن میں گھنٹے 24 ہیں۔ 5 نمازوں پر کل ملا کر بھی ایک گھنٹہ صرف نہیں ہوتا مگر فرض کیجیے گھنٹہ ہی صرف ہوتا ہے۔ گویا ایک گھنٹہ مسلمان خدا کے حضور ہوتا ہے اور باقی 23 گھنٹے دوسرے مسلمانوں یا غیر مسلموں سے معاملات کر رہا ہوتا ہے۔ انہی معاملات میں سارے حقوق العباد بھرے ہوئے ہیں۔ ہم نے تو آسان سے 2 لفظ رٹ رکھے ہیں،  ایک یتیم اور دوسرا مسکین۔ اور تصور قائم کرلیا گیا ہے کہ ان 2 کو 100،50 کا نوٹ پکڑانے سے حقوق العباد ادا ہوگئے۔ جائیداد میں بہنوں کا حق مارنے والا بھی خوش ہے کہ مسکین کو 10روپے پکڑا کر بڑا تیر مار لیا ہے۔ باپ کی میراث میں چھوٹے بھائیوں کا حق مار کر پورا گھر قبضہ کر رکھا ہے اور ہالیڈے اِن کے سیمینار میں بھاشن دے رہے ہیں۔ اور پھر کسی کنویں میں مجلس شوری منعقد کرکے اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ لوگ دین سے بیزار کیوں ہو رہے ہیں؟ اجلاس کا اختتام اس اتفاق رائے پر ہوتا ہے کہ دجالی میڈیا نے ماحول خراب کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے بے دینی پھیل رہی ہے۔

مزید پڑھیں: یورپ کا گریہ

 کیا دجالی میڈیا امریکہ اور یورپ میں نہیں پایا جاتا؟ وہاں کے بدترین ماحول میں تو صورتحال یہ ہے کہ اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے تو ہمارے نام نہاد اسلامی قلعے کی صورتحال یہ کیوں ہے کہ لوگ دین سے بیزار ہو رہے ہیں ؟ہم بتائیں فرق کیا ہے ؟ گورے کے پاس اسلام کی سورس قرآن مجید ہے۔ اور ادھر پاکستان میں سورس آپ ہیں۔ ملا جی !اپنا خیر و شر کا تصور درست کیجیے۔ مال فتنہ یعنی شر ہے اور وہی مال چندے کی صورت دینے والا صاحب خیر۔ یہ کونسا  تصور خیر و شر ہے؟ اگر چندہ دے رہا ہے تو تاجی کھوکھر بھی قطب ہے اور چندہ نہیں دے رہا تو وہ کلین شیو بھی بے دین ہے جس کی جائے نماز اس کے تہجد کے سجدوں سے تر رہتی ہے۔ خدا کے دین سے ایسا کھلواڑ کرکے یہ بھی آپ ہی طے کریں گے کہ کون جنتی ہے اور کون دوزخی؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

جنتی کا فیصلہ دوزخی کا فیصلہ دین کا لیبل کفر کے فتوے مذہب کا سرٹیفیکیٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنتی کا فیصلہ دوزخی کا فیصلہ دین کا لیبل عالم اسلام صورتحال یہ ہو رہے ہیں یہ ہے کہ جاتا ہے ہوتا ہے ہیں کہ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کا غزہ مارچ، اسلام آباد میں ریڈ زون سیل  

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)جماعت اسلامی کے فلسطین مارچ کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں آج سیکیورٹی کے غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ ریڈ زون کو سیل کردیا گیا۔

نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے مطابق جماعت اسلامی نے اسرائیلی دہشت گردی کا شکار غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں آج اسلام آباد میں یکجہتی غزہ مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تاہم ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے جماعت اسلامی کے غزہ مارچ کے شرکا سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد میں ریڈ زون اور توسیع شدہ ریڈ زون سیل کر دیا گیا ہے۔

فلم ویلکم کے اداکار کا اکشے کمار کے ملازموں سے بھی کم معاوضہ ملنے کا انکشاف

دوسری جانب ریڈ زون جانے والے راستے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیے گئے ہیں، مارچ کے پیش نظر فیض آباد کو بھی سیل کر دیا گیا، فیض آباد میں ڈبل لہرز میں کنٹینرز لگا دیئے گئے۔

فیض آباد سے اسلام آباد جانے والی اہم شاہراہ کو بھی بند کر دیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے قافلوں کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات رہے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے یا احتجاج پر اکسانے والوں کو فوری گرفتار کر کے پیس فل اسمبلی اور پبلک ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جائیں گے۔

مارچ کے شرکا سے نمٹنے کیلئے ریڈ زون میں اضافی نفری تعینات کر دی گئی جبکہ دیگر صوبوں سے اضافی نفری بھی منگوائی گئی ہے۔

دولہے کے ساتھ انوکھا فراڈ، دلہن کی جگہ ساس سے شادی کرا دی گئی

اس ضمن میں جماعت اسلامی کے ترجمان شکیل ترابی نے غزہ مارچ پر حکومتی رویہ کو افسوس ناک قرار دے دیا ہے۔

جماعت اسلامی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے شہریوں کے لیے رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں، راستے کھولے جائیں راستوں کی بندش ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتی، غزہ مارچ کے راستے روکنا حکومت کی فلسطین سے محبت کا نقاب اتار رہی ہے حکومت امریکی خوشنودی کے لیے مارچ کا راستہ روک رہی ہے۔

جماعت اسلامی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مارچ کی تیاریاں مکمل ہیں، اسلام آباد کی ہر گلی سے لوگ نکلیں گے، دیگر شہروں سے آنے والے قافلوں کو اسلام آباد میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

شادی سے انکار پر بیٹی کا قتل، اٹلی میں پاکستانی نژاد والدین کی سزا برقرار

  
 
 
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • جج ہمایوں دلاور کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا مہم‘اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی 
  • سابق ائیر وائس مارشل کا کورٹ مارشل، وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا مہم ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیدی
  • اسلام آباد میں غزہ ملین مارچ ‘ امریکہ قاتل ‘ پاکستان میں حماس کا دفتر کھولاجائے ہفتہ کو ملک گیر ہٹرتال : حافظ نعیم
  • جمعیت علماء اسلام کا پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • حکمران امریکا اور اسرائیل سے خوف کھاتے ہیں:حافظ نعیم الرحمٰن
  • جماعت اسلامی کا غزہ مارچ، اسلام آباد میں ریڈ زون سیل